روس افغانستان میں ہماری کامیابیوں کو سبوتاژ کر رہا ہے: امریکی جنرل

افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جان نکلسن (فائل فوٹو)

جنرل نکلسن نے کہا ہے کہ امریکہ اس حقیقت سے واقف ہے کہ روس افغانستان میں امریکی فوج کی کامیابیوں اور کئی سال سے وہاں اس کی موجودگی کے اثرات زائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے

افغانستان میں امریکی افواج کے سربراہ جنرل جان نکلسن نے الزام عائد کیا ہے کہ روس افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور وہاں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔

جنرل نکلسن دو سال سے زائد عرصے تک افغانستان میں امریکی فوج اور 'ریزولوٹ سپورٹ مشن' کے سربراہ رہے ہیں اور اتوار کو اپنی ان ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔

جنرل نکلسن نے 22 اگست کو پینٹاگون میں صحافیوں کو افغانستان کے معاملات پر بریفنگ دی تھی جس کے بعد وائس آف امریکہ نے ان سے افغانستان کی صورتِ حال سے متعلق بعض سوالات کیے تھے۔

جنرل نکلسن نے ہفتے کو وائس آف امریکہ کو ایک ای میل کے ذریعے ان سوالات کے جواب بھیجے ہیں جن میں انہوں نے روس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ افغانستان کے حالات خراب کرنے کی کوششوں میں ملوث ہے۔

اپنی ای میل میں جنرل نکلسن نے کہا ہے کہ امریکہ اس حقیقت سے واقف ہے کہ روس افغانستان میں امریکی فوج کی کامیابیوں اور کئی سال سے وہاں اس کی موجودگی کے اثرات زائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور افغانستان میں امریکہ کے اتحادیوں کے دلوں میں افغانستان کے استحکام سے متعلق شک کے بیج بو رہا ہے۔

امریکی جنرل کے بقول یہ بات کوئی راز نہیں کہ روس امریکہ اور اس کے وسطی ایشیائی اتحادیوں بشمول افغانستان کے درمیان تفریق ڈالنے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دے رہا۔

امریکہ اور افغان حکام بارہا روس پر افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت اور افغان طالبان کو اسلحہ اور تربیت دینے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔

ماسکو حکومت ان الزامات کی تردید کرتی آئی ہےاور اس کا موقف رہا ہے کہ اس کے طالبان کےساتھ صرف سیاسی رابطے ہیں۔

لیکن روس کے ان تردیدی بیانات اور وضاحتوں کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شبہ ہے کہ روس افغانستان اور خطے میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے۔

حال ہی میں امریکہ اور روس دونوں ہی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے آغاز کی کوششیں کرتے رہے ہیں اور دونوں کی کوشش ہے کہ یہ مذاکرات ان کی ثالثی یا میزبانی میں ہوں۔

گزشتہ ہفتے ہی روس کی حکومت کو امریکہ اور افغانستان کے دباؤ کے نتیجے میں 4 ستمبر کو ماسکو میں ہونے والے وہ مذاکرات منسوخ کرنا پڑے تھے جن میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے علاوہ امریکہ اور بعض دیگر ممالک کے وفود کو بھی شریک ہونا تھا۔

افغان صدر اشرف غنی نے ان مذاکرات پر تحفظ کا اظہار کرتے ہوئے ان میں شرکت سے انکار کردیا تھا۔

حالیہ مہینوں کے دوران روسی حکومت بارہا یہ الزام عائد کرچکی ہے کہ بعض عناصر روس سے نسبتاً نزدیک افغانستان کے شمالی علاقوں میں داعش کے جنگجووں کی مدد میں ملوث ہیں۔ امریکہ اور افغان حکومت ایسی کسی بھی کارروائی میں ملوث ہونے کی تردید کرچکے ہیں۔