روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ 4 ستمبر کو ماسکو میں افغانستان امن عمل اجلاس معقد ہوگا جس میں طالبان نے، روس کی دعوت پر، شرکت کی حامی بھر لی ہے۔ یہ 2001 سے جاری افغان جنگ کے بعد طالبان کی جانب سے سب سے بڑی سفارتی پیش قدمی سمجھی جا رہی ہے۔
خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق، روس کے دفتر خارجہ نے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ روس نے اگلے ماہ ماسکو میں ہونے والے مذاکرات کے لئے امریکہ سمیت 12 ممالک کو دعوت دی تھی۔ یہ پیش رفت ایسے موقع پر آئی جب کہ روس افغانستان میں اپنا کردار بڑھا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق، ماسکو میں خبر رساں ادارے، ’اے پی‘ سے بات کرتے ہوئے روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ ’’روس نے 4 ستمبر کے مذاکرات کے لئے طالبان کو دعوت دی تھی جس کا ان کی جانب سے مثبت جواب آیا ہے‘‘۔
اجلاس کے مقاصد بیان کرتے ہوئے، سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ اِن میں روس کے طالبان کے ساتھ تعلقات، افغانستان میں طالبان کو شدت پسند کارروائیوں سے باز رکھنا اور افغانستان میں روسی باشندوں کا تحفظ یقینی بنانا شامل ہے۔
اے پی کے مطابق، طالبان ذرائع نے روس کے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لئے ان مذاکرات میں شرکت پر تیار ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان، پاکستان اور چین سمیت دیگر ممالک میں اپنے وفود بھیجنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔
ذرایع کا کہنا ہے کہ طالبان تمام ہمسایہ ممالک سے رابطے کرنے کے لئے تیار ہیں۔ نیز، یہ کہ طالبان اپنے قطر کے آفس میں امریکہ سمیت یورپی حکام سے مسلسل ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔
اے پی کے مطابق، سرگئی لاوروف نے افغان حکومت کے ان دعوؤں سے انکار کیا کہ روس طالبان کے ذریعے داعش سے نمٹنا چاہتا ہے۔
حالیہ دنوں میں افغانستان میں واقع داعش کی شاخ کی جانب سے شدید حملے کئے گئے۔ اِسے روس کے لئے اس لئے خطرناک قرار دیا جا رہے ہے چونکہ ان میں ازبکستان سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار جنگجوؤں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
روس کے دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 4 ستمبر کو ماسکو میں ہونے والے مذاکرات میں روس، افغانستان، چین، پاکستان، ایران اور ہندوستان کے نمائندے شرکت کریں گے اور ان مذاکرات کا مقصد ’’افغانستان میں جلد از جلد قومی ہم آہنگی اور امن کا قیام ممکن بنانا ہے‘‘۔