رسائی کے لنکس

داعش سے متعلق روسی دعویٰ درست نہیں: افغان ترجمان


افغانستان میں حکام نے روس کے تازہ ترین دعووں کو مسترد کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کے لڑائی کے شکار 34 صوبوں میں سے نو میں داعش کے ہزاروں عسکریت پسند اپنی قوت ’’پختہ کر رہے ہیں‘‘۔

افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان، محمد ردمانش نے بدھ کے روز کابل میں ایک اخباری کانفرنس میں کہا کہ ملک کے چار صوبوں میں داعش کے تقریباً 2000 جنگجو موجود ہیں، جن میں ننگرہار، کُنڑ، نورستان کا مشرقی علاقہ اور جوزجان کا شمالی خطہ شامل ہے۔

ردمانش کے بیان سے ایک ہی روز قبل افغانستان کے عنوان پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں تقریر کرتے ہوئے، روسی ایلچی نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں روسی تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، خاص طور پر شمالی صوبوں میں جن کی سرحدیں وسط ایشیائی ملکوں سے ملتی ہیں۔

نبنزیا نے مترجم کے ذریعے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’یہ وہ گروہ ہے جس کے حلقے میں 10000 لڑاکا شامل ہیں، جو 34 صوبوں کے کم از کم نو میں پہلے ہی سرگرم عمل ہیں؛ جو ملک کے شمال میں اپنے آپ کو مستقل طور پر مضبوط کر رہے ہیں، اور یوں وسط ایشیا کی جانب قدم بڑھانے کی تیاری کر رہے ہیں‘‘۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ داعش اپنے جنگجوؤں کے لیے تربیت گاہیں بنا رہی ہے، جن میں وہ بھی شامل ہیں جو وسط ایشیائی ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ نبنزیا کے الفاظ میں ’’یہ وہ حقائق ہیں جن سے ہم صرف نظر نہیں کر سکتے‘‘۔

داعش صوبہٴ خوراسان کو اپنی افغان شاخ قرار دیتا ہے، کہاں سے وہ ملک بھر میں افغان سولین اور فوجی اہداف پر خودکش حملےکرتا ہے، جن میں کابل کا دارالحکومت بھی شامل ہے، جس دہشت گردی میں سینکڑوں ہلاکتیں واقع ہو چکی ہیں۔

بم حملوں کا تازہ واقع منگل کو کُنڑ کے مغربی صوبے میں ہوا، جس میں کم از کم نو افراد ہلاک ہوئے، جن میں افغان پولیس فورس کو نشانہ بنایا گیا۔

’عمق‘ خبر رساں ادارے کے ذریعے، داعش نے ضلعہ چوکے میں مقامی افغان پولیس کیمپ پر حملے کی ذمہ دارے قبول کی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ دھماکے میں 13 افراد ہلاک ہوئے، جن کا تعلق، بقول اُس کے، ’’کافر افغان حکومت کی وفادار ملیشیا ‘‘ سے تھا۔ ’سائٹ انٹیلی جنس گروپ‘ کے مطابق، بم حملہ آور کی تصویر بھی جاری کی گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG