امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل نے افغان طالبان پر رمضان میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ تمام فریقین اپنی توانائی کرونا وائرس کے خلاف لڑنے پر صرف کریں۔ تاہم طالبان نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔
زلمے خلیل زاد نے اتوار کو متعدد ٹوئٹس میں افغان طالبان پر جنگ بندی پر زور دیا۔ انہوں نے یہ ٹوئٹس ایک ایسے وقت میں کی ہیں جب افغانستان میں تشدد میں اضافے کی وجہ سے کرونا وائرس کے سبب صحت عامہ کے بحران کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی سے پہلے مغربی ممالک کے دفاعی اتحاد 'نیٹو' اور افغان صدر اشرف غنی بھی طالبان سے جنگ بندی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ افغان عوام اور ان کے ملک کی بھلائی اسی میں ہے کہ تمام فریقین اپنی تمام توانائی کرونا وائرس کے خلاف لڑنے پر صرف کریں۔
The well-being of the Afghan people and the country itself depend on all parties devoting their full energies to the fight against the COVID-19 pandemic, the shared enemy of all.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) April 26, 2020
ان کے بقول کرونا وائرس سب کا مشترکہ دشمن ہے۔
خلیل زاد نے کہا کہ جمعے کو شروع ہونے والا رمضان کا مہینہ افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ملک کے مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر مقدم رکھیں۔
گزشتہ سال ستمبر میں ہونے والے افغان صدارتی انتخابات میں دونوں رہنماؤں نے اپنی اپنی جیت کا دعویٰ کیا تھا ۔ اگرچہ افغانستان کے الیکشن کمیشن نے غنی کو کامیاب قرار دیا تھا لیکن گزشتہ ماہ غنی اور عبداللہ نے الگ الگ صدارتی تقریبات کا انعقاد کیا جس کی وجہ سے کابل میں ایک سیاسی تنازع پیدا ہو گیا جو افغان امن کوششوں کے لیے کسی طور مفید نہیں ہے۔ اسی لیے امریکہ اور اتحادی ممالک افغان سیاسی قیادت پر ایک جامع حکومت قائم کرنے زور دیتے آرہے ہیں۔
امریکہ سفارت کار نے کہا کہ اسی طرح رمضان طالبان کو ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ انسانی بنیادوں پر تشدد میں کمی کے لیے جنگ بندی کو اس وقت تک قبول کرلیں جب تک صحت کا بحران ختم نہیں ہو جاتا۔
Ramadan offers Afghan leaders, President Ghani and Dr. Abdullah, the opportunity to put the interest of the country ahead of their own.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) April 26, 2020
افغانستان میں کرونا وائرس اور صحت عامہ کے مسائل کی وجہ سے بین الاقوامی برداری بشمول اقوام متحدہ طالبان پر جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں تاکہ کرونا وائرس سے نمٹنے کے صحت عامہ کے اہلکار اور امدادی ادارے اپنا کام پرامن ماحول میں کر سکیں۔
دوسری جانب طالبان نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ متعدد تنظیمیں اور افغان حکومت طالبان سے بار بار جنگ بندی کا اعلان اور تشدد میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن طالبان یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ قیام امن اور تنازع کےخاتمے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں۔
طالبان کے مطابق 29 فروری کو طے پانے والے اس معاہدے میں یہ واضح تھا کہ 10 دن میں افغان حکومت اور طالبان قیدیوں کی رہائی کے بعد بین الافغان مذاکرات کا راستہ کھل جائے گا۔
طالبان کے مطابق اگر بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہوتا تو افغانستان میں قیام امن کے ساتھ ساتھ لڑائی لا خآتمہ ہو چکا ہوتا اور اب تک کافی پیش رفت ہو چکی ہوتی۔
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے الزام عائد کیا کہ کابل حکومت کا مفاد جنگ جاری رکھنے میں ہے۔ اس لیے وہ پہلے دن ہی سے معاہدے پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔
ان کے بقول قیدیوں کی رہائی میں مسلسل تاخیر کی جا رہی ہے جب کہ اندرونی اختلافات کی وجہ سے حکومت بین الافغان مذاکرات کے لیے جامع ٹیم تشکیل نہیں دی سکی ہے۔
طالبان ترجمان نے کہا کہ امریکہ اور افغان حکومت دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد میں ناکام رہے ہیں۔ ایسے میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنا غیر منطقی اور موقع پرستی ہے۔
Remarks concerning calls on Islamic Emirate to declare ceasefirehttps://t.co/4YHMlwAc99"Demanding a ceasefire and reduction in violence at a time when the opposite side is not executing its own obligations is both illogical and opportunistic." pic.twitter.com/LQg02C1MdQ
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) April 26, 2020
یاد رہے کہ افغان حکومت اب تک 550 طالبان قیدیوں رہا کر چکی ہے جب کہ طالبان افغان حکومت کے 60 قیدی رہا کر چکے ہیں۔
حال ہی میں مغربی ممالک کے دفاعی اتحاد (نیٹو) نے افغان طالبان سے کہا تھا کہ وہ تشدد میں کمی لائیں اور کسی تاخیر کے بغیر امن مذاکرات میں شامل ہوں۔
نیٹو نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کی رہائی کا عمل تیز کرنے بھی زور دیا ہے۔
نیٹو نے کابل حکومت سے بین الافغان مذاکرات کے لیے ایک جامع ٹیم تشکیل دینے کا خیر مقدم کرتے ہوئے طالبان پر زور دیا کہ وہ کسی تاخیر کے بغیر اس ٹیم کے ساتھ مذاکرات شروع کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ وہ دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے مطابق امن و سلامتی کی طرف پیش رفت کے خواہاں ہیں۔ یہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے طالبان اور امریکہ جنگ کا ختم کر سکتے ہیں جب کہ افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی تشدد کی کارروائیوں میں اضافہ اور قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کی وجہ سے دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کے تحت ہونے والی پیش رفت میں تاخیر ہو رہی ہے۔
افغانستان کی قومی سلامتی کے دفتر کے ترجمان جاوید فیصل نے دعویٰ کیا ہے کہ 29 فروری کو امن معاہدے پر دستخط ہونے سے کر 20 اپریل تک طالبان نے افغانستان میں 2804 سے زائد دہشت گردی کی کارروئیاں کی ہیں یعنی یومیہ 55 حملے کیے گئے۔
1. From the February 29 signing of the peace deal until April 20, Taliban conducted 2,804 terrorist activities across Afghanistan (averaging about 55 a day). The numbers show Taliban doing nothing for peace and everything to continue their campaign of terror against Afghans.
— Javid Faisal (@Javidfaisal) April 25, 2020
ان کے بقول یہ تعداد ظاہر کرتی ہے کہ طالبان امن کے لیے کچھ نہیں کر رہے ہیں اور وہ افغان قوم کے خلاف دہشت کی مہم کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
فیصل جاوید نے ہفتے کو ٹوئٹ میں کہا کہ اس دوران طالبان نے میبنہ طور پر 789 عام افغان شہریوں کو ہلاک یا زخمی کیا۔ طالبان نے بظاہر عام شریوں کے خلاف مہم کو تیز کر دیا ہے۔
2. Taliban killed or wounded 789 civilians during this period (average of 15 a day). In a sign of intensifying Taliban campaign against civilians, last week was the bloodiest since the US-Taliban deal, with Taliban killing 34 and wounding 62 civilians across 17 provinces.
— Javid Faisal (@Javidfaisal) April 25, 2020
ان کے بقول امریکہ طالبان معاہدے کے بعد گزشتہ ہفتہ مہلک ترین رہا جس دوران طالبان نے ملک کے 17 صوبوں میں مبینہ طور 34 عام شہریوں کو ہلاک اور 62 کو زخمی کیا۔
فیصل نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ29 فروری سے افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کی پھرپور جوابی کارروائیوں کے دوران 2700 سے زائد طالبان ہلاک یا زخمی ہوئے۔
3. Our National Defense and Security Forces (NDSF) returned Taliban attacks in full measure. NDSF killed or wounded 2,737 Taliban, including leaders and commanders, since Feb. 29. In the last week alone, NDSF took out 309 and wounded 210 Taliban.
— Javid Faisal (@Javidfaisal) April 25, 2020
ان کے بقول صرف گزشتہ ایک ہفتے کے دوان افغان سیکیورٹی فورسز نے 309 طالبان کو ہلاک اور 210 کو زخمی کیا ہے۔
طالبان کی طرف سے افغان سلامتی کونسل کے دعوے پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے لیکن طالبان یہ کہہ چکے ہیں کہ گزشتہ سال اسی عرصے کے مقابلے میں رواں سال افغان سیکیورٹی فورسز پر ان کے حملوں میں کمی آئی ہے۔