امریکہ نے ترکی کے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں مقیم ترک مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کوترک حکومت کے حوالے کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے پیر کو ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا ہے کہ ترک صدر رجب طیب ایردوان کے ساتھ گزشتہ ماہ اپنی ملاقات میں صدر ٹرمپ نے ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا تھا کہ وہ گولن کو ترکی کے حوالے کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
ترک وزیرِ خارجہ میوولت کاووسوغلو نے اتوار کو امریکی ٹی وی 'سی این بی سی' کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ ارجنٹائن میں ہونے والے 'جی - 20' سربراہ اجلاس کے موقع پر صدر ایردوان کو بتایا تھا کہ امریکہ گولن اور دیگر لوگوں کو ترکی کے حوالے کرنے پر غور کر رہا ہے۔
فتح اللہ گولن 1999ء سے خود ساختہ جلا وطنی پر امریکہ کی ریاست پنسلوینیا میں مقیم ہیں اور ترک حکومت کا الزام ہے کہ 2016ء میں صدر ایردوان کے خلاف ہونے والی ناکام فوجی بغاوت میں ان کی تحریک 'حزمت' کا ہاتھ تھا۔
فتح اللہ گولن بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کرتے آئے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ ان کی تحریک پرامن ہے اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے انقلاب لانے پر یقین رکھتی ہے۔
ترکی کی حکومت ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے مسلسل امریکہ سے فتح اللہ گولن اور ان کے قریبی ساتھیوں کو ترکی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
لیکن امریکی حکومت کا موقف ہے کہ ترکی گولن کے خلاف ایسے شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا ہے جن سے یہ ثابت ہوسکے کہ بغاوت میں انہی کا ہاتھ تھا۔
ترک حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اب تک امریکہ کو گولن اور ان کے ساتھیوں کے خلاف شواہد اور دستاویزات سے بھرے 85 ڈبے دے چکی ہے جن سے گولن پر عائد الزامات ثابت ہوتے ہیں۔
اتوار کو اپنے انٹرویو میں ترک وزیرِ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ان کے ملک نے امریکہ میں مقیم فتح اللہ گولن کے 80 سے زائد پیروکاروں کی حوالگی کا بھی مطالبہ کر رکھا ہے۔
ترک حکومت ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے 'حزمت' سے تعلق کے الزام میں لاکھوں سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کرچکی ہے جب کہ اساتذہ، فوجی اور پولیس افسران، عدالتی اہلکاروں سمیت ہزاروں افراد ترک حکام کی قید میں ہیں اور اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔