ترکی میں ایک امریکی سفارتی اہلکار کی گرفتاری کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے لیے ویزہ سروس معطل کردی ہے۔
انقرہ میں واقع امریکی سفارت خانے کی جانب سے اتوار کو جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حالیہ واقعات کے بعد امریکی حکومت ترکی میں واقع اپنی سفارتی تنصیبات اور اہلکاروں کی حفاظت کے لیے ترک حکومت کی سنجیدگی کے از سرِ نو جائزے پر مجبور ہوگئی ہے۔
بیان میں کہا گیاہے کہ سفارتی تنصیبات اور اہلکاروں کی سکیورٹی سے متعلق جائزے کے دوران امریکی سفارت خانے اور قونصل خانے آنے والے افراد کی تعداد کم رکھنے کی غرض سے امریکہ ترکی میں واقع اپنی تمام سفارتی تنصیبات میں نان امیگرینٹ ویزہ سروس معطل کر رہا ہے۔
امریکی سفارت خانے کے بیان میں نہ تو ان "حالیہ واقعات" کی وضاحت کی گئی ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ ویزہ سروس کب تک معطل رہے گی۔
امریکی سفارت خانے کے اس اعلان کے کچھ ہی دیر بعد واشنگٹن ڈی سی میں واقع ترک سفارت خانے نے بھی اعلان کیا کہ وہ بھی امریکہ میں اپنی نان امیگرینٹ ویزہ سروس معطل کر رہا ہے۔
ترک سفارت خانے نے اپنے بیان میں بالکل وہی زبان استعمال کی ہے اور انہی وجوہات کا ذکر کیا ہے جو امریکی بیان میں موجود ہیں۔
گزشتہ ہفتے ترک پولیس نے امریکی قونصل خانے کے ایک ملازم ترک شہری میٹن ٹوپوز کو مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کی تحریک کے لوگوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'اناطولو' کے مطابق امریکی قونصل خانے کے ملازم کو بد ھ کو حراست میں لیا گیا تھا اور اس پر جاسوسی اور ترک حکومت اور ملک کے آئینی نظام کو نقصان پہنچنے کی کوشش کرنے کا الزام ہے۔
ترکی فتح اللہ گولن کی تحریک کو دہشت گرد قرار دے چکا ہے اور اس کا الزام ہے کہ ان تحریک سے وابستہ لوگ گزشتہ سال صدر رجب طیب ایردوان کی حکومت کے خلاف ہونے والی ناکام فوجی بغاوت میں پیش پیش تھے۔
فتح اللہ گولن گزشتہ کئی برسوں سے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے ہیں اور امریکی ریاست پینسلوانیا میں مقیم ہیں۔ گولن ترک حکومت کے خلاف بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کرتے ہیں۔
ترکی مغربی ملکوں کے دفاعی اتحاد 'نیٹو' کا حصہ ہونے کے علاوہ شام اور عراق میں داعش کے خلاف کارروائیاں کرنے والے امریکہ کی سربراہی میں قائم بین الاقوامی اتحادکا بھی حصہ ہے۔
لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات گزشتہ سال سے کشیدگی کا شکار ہیں۔ ترکی امریکہ کی جانب سے شام میں کرد ملیشیا (وائے پی جی) کو دی جانے والی مدد اور حمایت پر نالاں ہے اور اس کا موقف ہے کہ شام میں کرد ملیشیا کے مضبوط ہونے سے ترکی میں کردوں کی علیحدگی پسند تحریک مضبوط ہوسکتی ہے۔
ترک حکومت امریکہ سے فتح اللہ گولن کو بھی ملک بدر کرنے اور ترک حکومت کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے جسے امریکہ تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔