ترکی کی حکومت نے جولائی 2016ء میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے کے شبہے میں مزید 18 ہزار سرکاری ملازمین کو برطرف کردیا ہے۔
ترک حکومت نے اتوار کو جاری کیے جانے والے ایک حکم نامےکے ذریعے ان ملازمین کو برطرف کیا ہے۔
برطرف کیے جانے والے 18 ہزار ملازمین میں سے نصف کا تعلق پولیس سے ہے جب کہ ان میں مسلح افواج کے پانچ ہزار سے زائد اہلکار اور افسر بھی شامل ہیں۔
جن ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے ان میں ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے 199 اساتذہ بھی ہیں۔
گزشتہ ماہ ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں صدر رجب طیب ایردوان اور ان کی جماعت 'آق' پارٹی کی کامیابی کے بعد حکومت کی جانب سے ملازمین کی برطرفی کا یہ پہلا حکم نامہ ہے جو صدر ایردوان کی حلف برداری سے محض ایک روز قبل جاری کیا گیا ہے۔
ترکی میں 2003ء سے مسلسل برسرِ اقتدار ایردوان پیر کو پانچ سال کی نئی مدت کے لیے صدارت کے منصب کا حلف اٹھائیں گے۔
گزشتہ ماہ ہونے والے انتخابات کے بعد ترکی کا نظامِ حکومت پارلیمانی سے صدارتی ہوگیا ہے جس میں صدر رجب ایردوان کو وسیع اختیارات حاصل ہوں گے۔
اقوامِ متحدہ کی دفتر برائے انسانی حقوق نے رواں سال مارچ میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ جولائی 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے ترک حکومت ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد سرکاری ملازمین کو برطرف کرچکی ہے۔
بغاوت میں ملوث ہونے اور اس کی حمایت کرنے کے الزام میں گرفتار افراد میں سے اب تک 50 ہزار سے زائد پر فردِ جرم عائد کی جاچکی ہے ۔
ترک حکومت نے بغاوت کا الزام امریکہ میں مقیم ترک نژاد مذہبی رہنما فتح اللہ گولن اور ان کے حامیوں پر عائد کیا تھا جسے وہ مسترد کرتے ہیں۔
یورپی ممالک اور امریکہ ترک حکومت کے اس کریک ڈاؤن پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں لیکن ترک حکومت کا موقف ہے کہ برطرف اور گرفتار کیے جانے والے سرکاری ملازمین گولن تحریک کے حامی ہیں جنہوں نے ریاست کے اندر ریاست قائم کر رکھی تھی۔
مغربی ملکوں کا الزام ہے کہ صدر ایردوان ناکام بغاوت کی آڑ میں اپنے مخالفین کو کچل رہے ہیں جب کہ ترک حکومت کہتی ہے کہ ان افراد کے خلاف کیے جانےوالے اقدامات قومی سلامتی کے لیے ضروری ہیں۔
ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے ترکی میں ہنگامی حالت نافذ ہے جس کے تحت ترک حکومت کو وسیع اختیارات حاصل ہیں اور عوام کے کئی بنیادی حقوق معطل ہیں۔
امکان ہے کہ ایردوان اپنی حلف برداری کے بعد ملک سے ہنگامی حالت اٹھالیں گے۔