ترکی میں اتوار کو صدر اور پارلیمان کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے گئے جنہیں گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے برسرِ اقتدار صدر رجب طیب ایردوان اور ان کی جماعت 'آک' پارٹی کے لیے اب تک کا سب سے بڑا امتحان قرار دیا جارہا ہے۔
نئے انتخابات کے بعد ترکی کا نظامِ حکومت پارلیمانی سے صدارتی ہوجائے گا جس میں صدر کو وسیع اختیارات حاصل ہوں گے۔
مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ترکی میں صدارتی نظام کا نفاذ صدر ایردوان کا دیرینہ خواب ہے جس کی ترک عوام نے 2017ء میں ہونے والے ایک ریفرنڈم میں منظوری دی تھی۔
صدارتی نظام کو نومبر 2019ء میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد نافذ ہونا تھا لیکن صدر ایردوان نے تین ماہ قبل ملک کو درپیش سکیورٹی اور معاشی چیلنجز کو جواز بناتے ہوئے انتخابات ڈیڑھ سال قبل رواں سال جون میں کرانے کا اعلان کردیا تھا۔
اتوار کو ہونے والے انتخابات میں پانچ کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں جن کے لیے ملک بھر میں ایک لاکھ 80 ہزار مراکز قائم کیے گئے ہیں۔
ووٹنگ کا عمل صبح آٹھ بجے شروع ہوا جو شام پانچ بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہا۔
ابتدائی جائزوں کے مطابق صدر ایردوان کو اپنے حریف اور حزبِ اختلاف کے متفقہ امیدوار محرم انچے سے سخت مقابلہ درپیش ہے اور امکان ہے کہ پہلے مرحلے میں کوئی امیدوار بھی مطلوبہ 50 فی صد سے زائد ووٹ حاصل نہیں کرسکے گا۔
حزبِ اختلاف کی بھی خواہش ہے کہ صدارتی انتخاب کا معاملہ دوسرےمرحلے تک جائے۔ آٹھ جولائی کو ہونے والے دوسرے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو سرِ فہرست امیدواروں کے درمیان دو بدو مقابلہ ہوگا۔
لیکن صدر ایردوان کی جماعت کی پوری کوشش ہے کہ وہ پہلے مرحلے میں ہی 50 فی صد سے زائد ووٹوں کی مطلوبہ تعداد حاصل کرلیں۔
یہ خدشہ بھی ظاہر کیاجارہا ہے کہ ترکی پر 2003ء سے برسرِ اقتدار 'آک' پارٹی ان انتخابات کے نتیجے میں پارلیمان میں اپنی اکثریت کھو سکتی ہے۔
اگر ایسا ہوا اور ایردوان صدر منتخب ہو بھی گئے تو ان کے لیے ملک کا نظام اپنی منشا کے مطابق چلانا اتنا آسان نہیں ہوگا اور قوی امکان ہے کہ پارلیمان اور قصرِ صدارت کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی شدت اختیار کرجائے گی۔
انتخابات کے موقع پر حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور غیر سرکاری تنظیموں نے انتخابی عمل کی مانیٹرنگ کے لیے ملک بھر میں پانچ لاکھ مبصرین تعینات کیے ہیں۔