امریکہ نے ہانگ کانگ کی حکومت کے ایک سال کے لیے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔
ہانگ کانگ میں آئندہ ماہ چھ ستمبر کو قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہونے تھے جسے کرونا وائرس کے باعث ایک سال کے لیے ملتوی کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
انتخابات ملتوی کیے جانے پر امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ ایسی کوئی حقیقی وجہ موجود نہیں ہے کہ اتنے طویل عرصے کے لیے انتخابات ملتوی کیے جائیں۔
مائیک پومپیو کا مزید کہنا تھا کہ انتخابات کا انعقاد 6 ستمبر کے الیکشن کی تاریخ کے قریب ہی ہونا چاہیے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اگر انتخابات ہانگ کانگ کے عوام کی امنگوں اور خواہشات کے عکاس نہ ہوئے تو یہ نیم خود مختار شہر بھی چین میں کمیونسٹ پارٹی کے زیرِ انتظام دیگر شہروں کی طرح ہو جائے گا۔
مائیک پومپیو نے انتخابات کے التوا کو 'قابل افسوس عمل' قرار دیا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ چین 1997 میں برطانیہ سے اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے معاہدے کی پاسداری نہیں کرنا چاہتا۔
چین کی حامی ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لم نے جمعے کو اعلان کیا تھا کہ شہر میں قانون ساز اسمبلی کے ستمبر میں ہونے والے انتخابات ایک سال کے لیے کرونا وائرس کے باعث ملتوی کیے جا رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
بیشتر مبصرین اس اقدام کو ہانگ کانگ کے جمہوریت پسندوں کو کنارے لگانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں، امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ آئندہ انتخابات میں جمہوریت پسندوں کو مزید کامیابی مل سکتی تھی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابات کا التوا حکومت کے ان اقدامات کا حصہ ہے جس کے تحت جمہوریت کے حامیوں کی تحریک کو ناکام بنانے کی کوشش کرنا ہے۔
حالیہ دنوں میں ہانگ کانگ میں دو اساتذہ کو انتظامیہ نے سیاست میں ملوث ہونے پر فارغ کیا ہے جب کہ چار نوجوانوں کو بھی ملکی سالمیت کے لیے خطرناک قرار دے کر گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک امریکی شہری سمیت ہانگ کانگ کے چھ باشندوں کے گرفتاری کے احکامات بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔ ستمبر میں ہونے والے انتخابات کے لیے کاغذات جمع کروانے والے 12 جمہوریت پسندوں کی نامزدگی بھی مسترد کی جا چکی ہے۔
ہانگ کانگ میں چھ جمہوریت پسند سرگرم کارکنوں کے وارنٹ گرفتاری کے اجرا پر انتباہی ردعمل ظاہر امریکہ کی کانگریس کے رکن اور ایوان کی خارجہ پالیسی کمیٹی کے چیئرمین ایلیٹ اینگل اور سینیٹ کی امورِ خارجہ کمیٹی کے سینئر رکن سینیٹر رابرٹ مینڈیز نے ایک بیان میں کہا کہ اگر بیجنگ یہ سمجھتا ہے کہ وہ آزادی، جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے حامیوں کو خاموش کرا سکتا ہے تو وہ اس کی بڑی غلطی ہے۔ آج ہم سب ہانگ کانگ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اینگل اور مینڈیز نے مزید کہا کہ اس اقدام سے بین الاقوامی برادری کے قوانین کی پاسداری کرنے والے ایک ذمہ دار رکن کے طور پر چین کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔