صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر چترال میں ایک امریکی شہری نے پاکستان کے قومی جانور مارخور کا شکار کیا ہے۔ محکمہ تحفظ جنگلات کے مطابق یہ شکار 88 ہزار امریکی ڈالرز کے عوض کیا گیا۔
یہ رقم پاکستانی روپوں میں تقریباً ایک کروڑ تیس لاکھ روپے سے زائد بنتی ہے۔
پاکستان کے صوبہ خيبر پختونخوا کے علاقے چترال، کوہستان، شمالی علاقہ جات ادھر شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان، پاکستان کے زيرِ انتظام کشمير اور صوبہ بلوچستان ميں مارخور کی کئی اقسام پائی جاتی ہيں۔
خیال رہے کہ پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ اسکیم کے تحت ہر سال مارخور کے شکار کے لیے فی الحال 12 لائسنسز جاری کیے جا رہے ہیں۔
گزشتہ برس ایک شکاری نے نر مارخور کے شکار کے لیے ایک لاکھ پچاس ہزار امریکی ڈالر کی رقم ادا کی تھی۔ اس سال توقع کی جا رہی تھی کہ یہ رقم مزید اوپر جائے گی تاہم کرونا وبا اور سفری مشکلات کی وجہ سے لائسنس فیس میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
ڈویژنل فارسٹ آفیسر چترال الطاف علی شاہ کے مطابق امریکی شہری ایڈورڈ جوزف ہڈسن نے یہ شکار 88 ہزار امریکی ڈالرز کے عوض توشی شاشہ کے علاقے میں کیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے الطاف علی شاہ نے بتایا کہ امریکی شہری نے رائفل کے ذریعے 40 انچ کے سینگوں والے 10 سالہ مار خور کا شکار کیا۔
الطاف علی شاہ کے مطابق شکار کے بعد محکمہ جنگلی حیات کے اہلکار شکار کیے گئے مارخور کے سینگ کی پیمائش کرتے ہیں اور بعد میں شکاری کے حوالے کر دیتے ہیں جسے وہ بطور ٹرافی اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
شکاری اس کے سينگ اپنے پاس عمر بھر محفوظ رکھنا چاہتے ہيں کيوں کہ يہ ان کے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 40 انچ سینگ والے مارخور کا شمار اچھے شکار میں ہوتا ہے۔
ڈویژنل فارسٹ آفیسیر کے مطابق ایڈورڈ جوزف ہڈسن نے یہ شکار تین سو میٹر کے فاصلے سے کیا۔
ان کے مطابق شکاری گزشتہ ہفتے چترال پہنچا جہاں اس نے سہ پہر کے ساڑھے تین بجے توشی شاشہ میں شکار کیا۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے دو علاقوں، چترال اور کوہستان میں مار خور پایا جاتا ہے۔
گزشتہ سال دسمبر میں ایک امریکی شہری نے ہی 85 ہزار امریکی ڈالرز کے عوض مارخور کا شکار کیا تھا۔ اس شکار کی منفرد بات یہ تھی کہ اسے شکاری نے بندوق کے بجائے تیر کمان کے ذریعے کیا تھا۔
فارسٹ آفیسر الطاف علی شاہ کے مطابق یہ شکاری پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس طریقہ کار کے ذریعے اپنا ہدف حاصل کرتا ہے۔
عام طور پر مارخور صوبہ صبح اور شام کے وقت حرکت کرتا ہے۔ اسی لیے مارخور کا شکار فجر کی اذان کے وقت ہی ممکن ہوتا ہے۔ دلچسپ امر يہ ہے کہ مارخور جہاں رہتا ہے وہ اسی طرز کا رنگ اپنا ليتا ہے اور بہت قريب سے بھی يہ پتا نہی چلتا کہ سامنے مارخور ہے يا پھر کوئی پتھر۔
ماہرین کے مطابق قدرت نے اس جانور کو کیموفلاج کی بہت بڑی طاقت دی ہے اور اس کا رنگ موسم کے اعتبار سے بھی بدلتا رہتا ہے۔
ماہرین کے مطابق شکاری کو بہت احتياط سے فائر کرنا ہوتا ہے کيوں کہ فائر مس ہونے کی صورت ميں مار خور بھاگ جاتا ہے اور پھر اس کا دوبارہ رینج میں آنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
تاہم اس صورت ميں شکاری کے پاس دوسرے فائر کا آپشن ہوتا ہے لیکن اس کے لیے اسے پھر دوسرے دن کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔
مارخور کی عمر اوسطاً 15 سال ہوتی ہے۔ يہ آزاد حرکت کا عادی جانور ہے۔ اس کی خوراک گھاس اور پتے ہوتے ہيں اور یہ گوشت خور جانور نہیں ہے۔
مارخور انتہائی سخت جانور ہے اور يہ انتہائی سرعت کے ساتھ پہاڑ چڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ کا آغاز نوے کی دہائی میں ہوا تھا اور اس اسکیم کے تحت ہر سال قومی جانور کے 12 پرمٹس کی نیلامی ہوتی ہے۔
یہ خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، اور صوبہ بلوچستان میں برابر تقسیم ہوتے ہیں۔ ٹرافی ہنٹنگ اسکیم کے تحت ملنے والی رقم کا 80 فی صد مقامی آبادی کی فلاح و بہبود جب کہ باقی ماندہ حکومتی خزانے میں جمع ہوتا ہے۔
الطابق علی شاہ کے مطابق ٹرافی اسکیم کے تحت ملنے والی رقم سے علاقے میں ترقیاتی کام کرائے جاتے ہیں جس میں مساجد کی تعمیر، آب پاشی کا نظام، روزگار، تعلیم اور مارخور کے تحفظ کے لیے گارڈز بھی رکھے جاتے ہیں۔
'البرہان توشی شاشہ کنزرویسی' کے صدر سکندر الملک کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ سے حاصل ہونے والی رقم کے لیے کوئی پیشگی شرط نہیں ہوتی کہ اس سے کس نوعیت کے کام کیے جائیں گے بلکہ کمیونٹی کی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے موجودہ حالات کے مطابق کام کیے جاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ کمیونٹی ممبرز اپنی ایک قرارداد بنا کر محکمہ جنگلی حیات کے دفتر میں بھجوا دیتے ہیں جہاں سے رقم کا بندوبست ایک مہینے کے اندر ہو جاتا ہے اور یوں فوری کام ہو جاتا ہے۔
انہوں نے مزید واضح کیا کہ ٹرافی ہنٹنگ سے حاصل ہونے والی رقم بہت مفید ہے کیوں کہ یہ بروقت دستیاب ہوتی ہے جب کہ حکومتی معاملات میں ایک چھوٹا سا کام کرنے کے لیے بھی مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
سکندر الملک کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ اسکیم کے بعد علاقے میں مارخور کی افزائش میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ان کے مطابق اس اسکیم کو دیکھتے ہوئے دوسرے علاقوں کے رہائشیوں نے بھی مارخور کی افزائش شروع کر دی ہے اور چاہتے ہیں کہ یہ اسکیم ان کے علاقوں میں بھی شروع ہو۔