پاکستان میں اگرچہ جنگلات عالمی سطح پر متعین کردہ کم از کم حد سے بہت تھوڑے رقبے پر واقع ہیں لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں دنیا کے دوسرے بڑے صنوبر کے جنگلات موجود ہیں۔
صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے جوکہ بعض اندازوں کے مطابق تین ہزار سال تک محیط ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں سطح سمندر سے دو سے تین ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں افزائش بھی اس کی انفرادیت ہے۔
پاکستان میں صنوبر کے جنگلات شمال مغرب اور جنوب مغرب میں پائے جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کے علاقے رحیم آباد میں صنوبر کے جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی تھی جس سے بہت سے درخت متاثر ہوئے۔
ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر پاکستان کے کنزرویشن مینیجر محمد ظفر خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تقریباً ایک مربع کلومیٹر رقبے پر واقع صنوبر کے جنگل کو آتشزدگی سے نقصان پہنچا اور لگ بھگ 100 درخت جل گئے۔
’’ان درختوں کی افزائش بہت سست ہوتی ہے۔ ایک درخت کو میچور ہونے میں سو سال لگ جاتے ہیں۔ یہاں پر گلگت بلتستان میں جونی پر(صنوبر) کے جنگلات ٹکڑیوں میں پائے جاتے ہیں تو اس (آتشزدگی) سے اس پیچ کو نقصان پہنچا ہے۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ رحیم آباد اور اس کے گرد و نواح کے علاقے میں مارخور کی استوری نسل کے جانوروں کا مسکن ہے اور صنوبر کے جنگلات کو پہنچنے والے نقصان سے یہ مارخور بھی بالواسطہ طور پر متاثر ہو سکتے ہیں۔
محمد ظفر نے بتایا کہ یہاں کی مقامی آبادی کی ایندھن کی ضروریات بھی جنگلات سے حاصل ہونے والی لکڑی پر منحصر ہوتی ہیں جس سے قدرتی درختوں کے ذخائر پر ایک اضافی بوجھ پڑتا ہے۔
’’گلگت بلتستان کے محکمہ جنگلات نے گو کہ جنگلات سے لکڑی کاٹنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن یہاں کے لوگوں کا انحصار اس پر ہے ... تو ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر نے دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر یہاں لوگوں کی زرعی اراضی میں تیزی سے بڑھنے والے درخت لگانے کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے تاکہ قدرتی جنگلات پر پڑنے والے بوجھ کو کم کیا جاسکے۔‘‘
ان کے بقول رواں سال اب تک یہاں ڈیڑھ لاکھ تیزی سے بڑھنے والے پودے جن میں سفیدہ، کیکر اور بید شامل ہیں لگائے جا چکے ہیں۔
عالمی سطح پر کسی بھی ملک کے تقریباً 20 سے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے جب کہ پاکستان میں 4.8 چار فیصد رقبے پر ہی درختوں کے ذخائر ہیں۔
صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے جوکہ بعض اندازوں کے مطابق تین ہزار سال تک محیط ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں سطح سمندر سے دو سے تین ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں افزائش بھی اس کی انفرادیت ہے۔
پاکستان میں صنوبر کے جنگلات شمال مغرب اور جنوب مغرب میں پائے جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کے علاقے رحیم آباد میں صنوبر کے جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی تھی جس سے بہت سے درخت متاثر ہوئے۔
ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر پاکستان کے کنزرویشن مینیجر محمد ظفر خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تقریباً ایک مربع کلومیٹر رقبے پر واقع صنوبر کے جنگل کو آتشزدگی سے نقصان پہنچا اور لگ بھگ 100 درخت جل گئے۔
’’ان درختوں کی افزائش بہت سست ہوتی ہے۔ ایک درخت کو میچور ہونے میں سو سال لگ جاتے ہیں۔ یہاں پر گلگت بلتستان میں جونی پر(صنوبر) کے جنگلات ٹکڑیوں میں پائے جاتے ہیں تو اس (آتشزدگی) سے اس پیچ کو نقصان پہنچا ہے۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ رحیم آباد اور اس کے گرد و نواح کے علاقے میں مارخور کی استوری نسل کے جانوروں کا مسکن ہے اور صنوبر کے جنگلات کو پہنچنے والے نقصان سے یہ مارخور بھی بالواسطہ طور پر متاثر ہو سکتے ہیں۔
محمد ظفر نے بتایا کہ یہاں کی مقامی آبادی کی ایندھن کی ضروریات بھی جنگلات سے حاصل ہونے والی لکڑی پر منحصر ہوتی ہیں جس سے قدرتی درختوں کے ذخائر پر ایک اضافی بوجھ پڑتا ہے۔
’’گلگت بلتستان کے محکمہ جنگلات نے گو کہ جنگلات سے لکڑی کاٹنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن یہاں کے لوگوں کا انحصار اس پر ہے ... تو ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر نے دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر یہاں لوگوں کی زرعی اراضی میں تیزی سے بڑھنے والے درخت لگانے کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے تاکہ قدرتی جنگلات پر پڑنے والے بوجھ کو کم کیا جاسکے۔‘‘
ان کے بقول رواں سال اب تک یہاں ڈیڑھ لاکھ تیزی سے بڑھنے والے پودے جن میں سفیدہ، کیکر اور بید شامل ہیں لگائے جا چکے ہیں۔
عالمی سطح پر کسی بھی ملک کے تقریباً 20 سے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے جب کہ پاکستان میں 4.8 چار فیصد رقبے پر ہی درختوں کے ذخائر ہیں۔