اتوار کے روز فلوریڈا میں قائم خلائی تحقیق کے مرکز سے امریکی فوج کا ایک خلائی جہاز ایک بار پھر ایک راکٹ کے ذریعے زمین کے مدار میں پہنچایا گیا۔ اس جہاز پر بہت سے سائنسی آلات نصب ہیں۔
یہ ایکس 37 بی نامی خلائی جہاز کی چھٹی پرواز ہے۔ یہ شمسی توانائی پر چلتا ہے اور اس پر کوئی خلاباز سوار نہیں۔ اسے زمین سے ریمورٹ کی مدد سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
عہدے داروں نے یہ نہیں بتایا کہ شمسی توانائی سے چلنے والے اس جہاز کو کتنے عرصے تک زمین کے مدار میں رکھا جائے گا اور یہ کہ اس مشن کا مقصد کیا ہے۔
لیکن بوئنگ ایکس 37 بی مشن کے ایک سینئر وائس پریذیڈنٹ جم شیلٹن نے کہا ہے کہ اس مشن کی ہر پرواز کا دوارنیہ پہلے سے زیادہ ہو گا۔
اس سے قبل بھیجے جانے والا مشن دو سال کی ریکارڈ مدت تک زمین کے مدار میں گردش کرتا رہا تھا۔
یہ خلائی جہاز ناسا کی پرانی شٹل سے مشابہت رکھتا ہے لیکن یہ اپنے حجم کے اعتبار سے شٹل کے ایک چوتھائی کے برابر ہے۔ اس کی لمبائی 29 فٹ ہے۔
زمین کے مدار میں بھیجے جانے والے اس خلائی جہاز میں اضافی سائنسی شعبے بنائے گئے ہیں جن میں سے کچھ ناسا کے لیے اور کچھ امریکی بحری فوج کی ریسرچ لیبارٹری کے لیے کام کرتے ہیں۔ سائنسی آلات کے لحاظ سے یہ ایکس 37 بی کا اب تک کا سب سے بڑا مشن ہے۔
امریکی ایئرفورس کے پاس اس طرح کے دو خلائی جہاز ہیں، جنہیں بار بار استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہیں کینیڈی سپس سینٹر میں رکھا گیا ہے۔
ایکس 37 بی کی پہلی پرواز 2010 میں زمین کے مدار میں بھیجی گئی تھی۔ جو اتوار کے روز تک اپنی پرواز کے 2865 دن مکمل کر چکی ہے۔
خلائی جہاز کی لانچ کے موقع پر مشن کے سینئر نائب صدر شیلٹن نے کہا کہ اگر آپ اس مشن کے تمام جہازوں کی پروازوں کو یک جا کریں تو یہ اب تک زمین کے مدار میں ایک ارب میل کا سفر طے کر چکے ہیں۔
خراب موسم کی وجہ سے خلائی جہاز کی لانچنگ میں ایک روز کی تاخیر کی گئی۔ یہ لانچنگ نئی قائم کی جانے والی سپیس فورس نے کی۔