امریکہ اور افغانستان نے طالبان پر زور دیا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کیے جائیں۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری، جنھوں نے افغان قائدین سے بات چیت کے لیے ہفتے کو کابل کا دورہ کیا، کہا ہے کہ امن عمل میں طالبان کی شرکت سے تشدد کی کارروائیاں بند کرنے میں مدد ملے گی، جن کے باعث گذشتہ برسوں کے دوران لڑائی میں افغان عوام کو مشکلات درپیش رہی ہیں۔
کابل میں افغان صدر اشرف غنی کے ہمراہ ایک مشترکہ اخباری کانفرنس میں دونوں رہنمائوں نے وسیع تر امور پر گفتگو کی، جن میں جولائی میں وارسا میں نیٹو کے سربراہ اجلاس کا معاملہ شامل ہے، جس میں افغان سلامتی افواج کا جائزہ لیا جائے گا؛ اور ساتھ ہی، اِس سال کے آخر میں برسلز میں منعقد ہونے والی ترقیاتی امداد سے متعلق اجلاس پر بھی بات ہوئی۔
صدر اوباما نے کہا ہے کہ وہ اگلے سال افغانستان سے امریکی فوجوں کی تعداد 9800 سے گھٹا کر 5500 کر دیں گے۔ لیکن، حالیہ رپورٹوں سے یہ عندیہ ملتا ہے اِس ہدف کے حصول میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
کیری نے کہا ہے کہ فوجوں میں کمی لانے کے حتمی پروگرام طے کرنے سے پہلے اوباما افغانستان میں تعینات امریکی فوجی کمانڈروں سے مشاورت کریں گے۔
اِس سے قبل، کیری اور افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے دونوں ملکوں کے کمیشن کے ایک اجلاس کی صدارت کی، جسے قائم کرنے کا مقصد لڑائی کے خاتمے کے بعد افغانستان کو ''ایک مضبوط، مستحکم، جمہوری اور اپنے اوپر انحصار کرنے والی ریاست'' کے طور پر فروغ دینا ہے۔
ربانی نے کہا کہ حکومتِ افغانستان امن اور مفاہمت کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ تاہم، بقول اُن کے، ''یہ تبھی ممکن ہوگا جب طالبان مذاکرات کی میز کی جانب لوٹ آئیں''۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ''ہم سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے خطے کے کلیدی ممالک کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ حکومتِ افغانستان کے ساتھ براہِ راست بات چیت شروع کرنے کے لیے طالبان گروپ کو رضامند کرے''۔
خودساختہ چار فریقی رابطہ گروپ، جس میں امریکہ، افغانستان، پاکستان اور چین شامل ہیں، امن مذاکرات پھر سے شروع کرنے کا کوشاں رہا ہے؛ لیکن طالبان نمائندوں نے بات چیت کی ایک حالیہ کوشش کے دوران امن عمل میں شرکت سے انکار کیا تھا، جب گذشتہ ماہ مذاکرات کا آغاز ہونے ہی والا تھا۔
اِس سے قبل، امریکہ افغانستان باہمی کمیشن نے ایک تفصیلی اور وسیع جہتی بیان جاری کیا جس میں دونوں ملکوں نے ''انسانی حقوق کی حرمت، قانون کی حکمرانی اور جمہوری اقدار'' کے فروغ پر زور دیا گیا ہے۔
دونوں نے عہد کیا ہے کہ وہ تعاون جاری رکھیں گے، اور یہ کہ تین ورکنگ گروپ دفاع اور سلامتی؛ جمہوریت اور حکمرانی؛ اور معاشی اور سماجی ترقی کے حصول کی کوششیں جاری رکھیں گے۔
کیری نے امن اور سلامتی کے ضمن میں افغانستان کی ضرورتوں کی نشاندہی کی۔
اعلیٰ امریکی سفارت کار نے کہا کہ ''جب کہ ہدف دیرپہ اور تاریخی تبدیلی ہے، تساہل کی کوئی گنجائش نہیں''۔
بقول اُن کے، ''ایسے میں جب دہشت گرد مثبت عمل کو روکنے، اُس کی راہ میں حائل ہونے، کامیابی میں روڑے اٹکانے، اور تبدیلی کا دھارا روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، ظاہر ہے کہ تساہل کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی''۔