امریکی مدد کے باوجود افغانستان کی صورتِ حال مایوس کن ہے: رپورٹ

ایک امریکی فوجی افغان صوبے ہلمند میں افغان فوجیوں کی تربیت میں حصہ لے رہا ہے۔ اگست 2017

افغانستان کی تعمیر نو سے  متعلق ادارے سی آئی جی اے آر کے سپیشل  انسپکٹر جنرل  نے کہا ہے کہ امریکی فوج کی کارروائیاں افغان حکومت کے اپنے عوام پر کنٹرول کو بہتر بنانے میں ناکام رہی ہیں۔

نائین الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد افغانستان کو ایک محفوظ ملک بنانے کے لیے امریکی قیادت کے تحت فوجی کارروائیوں کے 16 سال گذر جانے کے بعد جنوبی ایشیاء کے اس جنگ زدہ ملک کے حالات میں اطمینان بخش بہتری کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ افغانستان میں امن و امان سے متعلق ایک حالیہ رپورٹ اس صورت حال کی ایک مایوس کن تصویر پیش کرتی ہے۔

افغانستان کی تعمیر نو سے متعلق ادارے سی آئی جی اے آر کے سپیشل انسپکٹر جنرل نے کہا ہے کہ امریکی فوج کی کارروائیاں افغان حکومت کے اپنے عوام پر کنٹرول کو بہتر بنانے میں ناکام رہی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف اکتوبر کے مہینے میں افغانستان میں موجود 11 ہزار امریکی فوجیوں پر مشتمل فورسز نے دشمنوں کے ٹھکانوں پر 653 بم گرائے جو 2012 کے بعد کسی ایک مہینے میں مہلک بم گرانے کا ایک ریکارڈ ہے اور جو ایک سال پہلے ، اکتوبر کے دوران حملوں سے تین گنا زیادہ ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے جانی نقصان میں بھی اضافہ ہوا ہے اور پچھلے سال کے 11 مہینوں میں 11 امریکی فوجی ہلاک ہوئے جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہیں۔

منگل کے روز امریکی کانگریس، محکمہ دفاع اور محکمہ خارجہ کو بھیجی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منشیات پر کنٹرول کے لیے 8 ارب 70 کروڑ ڈالر کی امداد کے باوجود پچھلے سال افغانستان میں افیون کی پیداوار میں 87 فی صد اضافہ ہوا اور پوست کے زیر کاشت رقبے میں بھی 63 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کے کنٹرول کے اضلاع کی تعداد گھٹ رہی ہے جب کہ ان علاقوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جن پر طالبان کا قبضہ یا اثر و رسوخ ہے۔

افغان صوبے فرح کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہاں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صوبے کے باشندوں کا کہنا ہے کہ طالبان نے کئی سرکاری چوکیاں تباہ کر دی ہیں اور سپائیوں کا ہلاک کیا جانا تقریباً روز مرہ کا معمول ہے۔

صوبہ فرح کے سابق گورنر محمد آصف شاہ نے ریڈیو فری یورپ کو بتایا کہ طالبان صوبے کو اپنا ایک مرکز بنانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں تاکہ ملک کے جنوب مغربی حصوں تک ایک راہداری قائم کر سکیں ۔

پولیس کے ایک سابق سربراہ جنرل معروف فولاد کا کہناہے کہ صوبے فرح میں تقریباً 6 ہزار شورش پسند اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں ایشیا فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کے سروے میں جواب دینے والے 50 فی صد افغان باشندے یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مفاہمت ہو سکتی ہے اور 16 فی صد رائے دہندگان طالبان کے پر جوش حامی تھے۔

رپورٹ کے مطابق پچھلے سال افغانستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے 167 واقعات ریکارڈ ہوئے۔

پچھلے چند دنوں میں دارالحکومت کابل میں تشدد کے بدترین واقعات دیکھنے میں آئے میں ۔ ان تین حملوں میں سوا سو سے زیادہ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔