نینسی پلوسی تائیوان جائیں گی یا نہیں؟ صورتحال غیر واضح

پیلوسی سنگا پور کے دورے پر

امریکی ایوان نمائدگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے پیر کو اپنے ایشیائی دورے کے آغاز پر سنگاپور میں حکام کے ساتھ بات چیت کی ہے جبکہ تائیوان کے کسی ممکنہ دورے کے بارے میں قیاس آرائیوں اور بیجنگ کے سخت رویّے نے اس دورے کے امکانات کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔

اگرچہ اس بارے میں کوئی سرکاری اعلان نہیں ہوا ہے، تائیوان کے مقامی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ پلوسی منگل کی رات پہنچیں گی۔ تائیوان کے تین بڑے قومی اخبارات یونائیٹڈ ڈیلی نیوز، لبرٹی ٹائمز اور چائنا ٹائمز نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ وہ ملائیشیا کا دورہ کرنے کے بعد تائی پے پہنچیں گی اورایک رات وہاں قیام کریں گی۔

بیجنگ نےاس مجوزہ دورے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے، جو تائیوان کو اپنا علاقہ مانتا ہے اور بار بار خبردار کر چکا ہے کہ اگر یہ تعلقات آگے بڑھے تو "سنگین نتائج" ہوں گے۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جیان نے تفصیلات بتائے بغیر بیجنگ میں کہا کہ اگر پلوسی تائیوان کے دورے پر اصرار کرتی ہیں تو چین اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے پرعزم اورمضبوط اقدامات کرے گا۔

امریکی اور چینی صدور

چین کے صدر شی جن پنگ نے گزشتہ ہفتے صدر جو بائیڈن کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے امریکہ کو جزیرے کے ساتھ بیجنگ کے معاملات میں مداخلت کے خلاف خبردار کیا تھا۔

تائیوان کی ایک فوجی مشق

چین مسلسل تائیوان پرسفارتی اور فوجی دباؤ بڑھا رہا ہے۔ پلوسی کے دورے پرجوابی کارروائی کی دھمکیوں نے آبنائے تائیوان میں ایک نئے بحران کے خدشات کو جنم دیا ہے، جس سے عالمی منڈیوں تک سپلائی چینز کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے بیجنگ کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ اگر پلوسی تائیوان کا دورہ کر بھی لیتی ہیں تو یہ امریکی پالیسی میں کسی تبدیلی کا اشارہ نہیں دے گا۔لہٰذا چین کو غصیلے بیانات دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

تائیوان اور چین 1949 میں تقسیم ہو گئے جب کمیونسٹوں نے سرزمین پرخانہ جنگی جیت لی۔ دونوں فریق کہتے ہیں کہ ایک چین پرصرف ان کا حق ہے۔ اس کے علاوہ اس بات پراختلاف ہے کہ چین کی قومی قیادت کونسی حکومت کو حاصل ہے۔

امریکہ نے 1979 میں تائی پے کے بجائے بیجنگ کو سفارتی طور چین کا دار الحکومت تسلیم کیا، لیکن اس جزیرے کے ساتھ غیر رسمی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن تائیوان ریلیشنز ایکٹ، ایک وفاقی قانون کے ذریعے یہ دیکھنے کا پابند ہے کہ تائیوان کے پاس اپنے دفاع کے ذرائع موجود ہیں۔

واشنگٹن کی "ایک چائنہ پالیسی" کہتی ہے کہ وہ دونوں فریقوں کی حیثیت پر کوئی پوزیشن نہیں لیتا بلکہ چاہتا ہے کہ ان کا تنازعہ پرامن طریقے سے حل ہو۔ بیجنگ ایک متبادل "ایک چائنا اصول" کو فروغ دیتا ہے جوکہتا ہے کہ وہ ایک ملک ہیں اورکمیونسٹ پارٹی اس کی رہنما ہے۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا کہ اگر پلوسی تائیوان کا دورہ کرتی ہیں تو چین کے اشتعال انگیز بیانات یا جوابی کارروائی کی دھمکیوں سے امریکہ کو "خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے"۔

کربی نے پیر کو سی این این کو بتایا کہ "ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ جب وہ بیرون ملک سفر کرتی ہیں، تو وہ محفوظ رہیں ۔" اس بارے میں نہ چینی بیان بازی کی کوئی وجہ ہے اور نہ کسی کارروائی کی۔ کانگریسی رہنماؤں کے لیے تائیوان کا سفر کرنا ہماری پالیسی کے مطابق ہے اور تائیوان ریلیشن ایکٹ کے تحت تائیوان ہماری حمایت سے ہم آہنگ ہے۔

پیر کو امریکی راہنما نینسی پلوسی نے سنگاپور کے وزیر اعظم لی ہسین لونگ صدر حلیمہ یعقوب اور کابینہ کے دیگر ارکان سے ملاقات کی۔

سنگاپور کی وزارت خارجہ نے کہا کہ لی نے خطے کے ساتھ مضبوط روابط کے لیے امریکی عزم کا خیرمقدم کیا، اور دونوں فریقوں نے انڈو پیسیفک اکنامک فریم ورک جیسے اقدامات کے ذریعے امریکی اقتصادی شمولیت کووسعت دینے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔

ایک بیان میں کہا گیا کہ لی اور پلوسی نے یوکرین میں جنگ، تائیوان اور سرزمین چین کے ارد گرد کشیدگی اور موسمیاتی تبدیلی پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ لی نےعلاقائی امن اور سلامتی کے لیے امریکہ اورچین کے مستحکم تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

اسپیکر نینسی پیلوسی.

پلوسی ​نے کہا ہے کہ وہ تجارت، کویڈ 19 ، وبائی امراض، موسمیاتی تغیر، سلامتی اور جمہوری طرز حکمرانی جیسے امور پر بات چیت کے لیے سنگاپور، ملائیشیا، جنوبی کوریا اور جاپان کا دورہ کر رہی ہیں۔ ان کے وفد میں امریکی حکام کے علاوہ کانگریس کے کئی اراکین بھی شامل ہیں۔

سپیکر پلوسی ​ے ایشیا کے دورے کے بارے میں بہت سی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئی ہیں ، بشمول اس کے کہ وہ کب جنوبی کوریا پہنچ رہی ہے اور کب تک قیام کریں گی پلوسی ​ کا بدھ کے لیے شیڈول ابھی تک واضح نہیں ہے اور اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں ہیں کہ وہ کب جاپان جائیں گی۔

(خبر کا مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا)