ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کی طرف سے آئندہ مقامی انتخابات سے قبل حکومت کی ساکھ متاثر کرنے والے سوشل میڈیا نیٹ ورکس کو بند کرنے کی دھمکی کے بعد، ترکی کی ایک عدالت نے وزارت داخلہ کے حکم پر سوشل میڈیا کے1136 اکاؤنٹ بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
ان میں ویب سائٹس، ٹویٹر، فیس بک، انسٹاگرام، یو ٹیوب اور پنٹریسٹ اکاؤنٹ شامل ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ ان میڈیا سائٹس پر ایردوان سے متعلق ایسی آڈیو ریکارڈنگ شائع کی گئیں جن سے مبینہ طور پر ان کی کرپشن کے اشارے ملتے ہیں۔
اس اقدام کی مذمت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بند ہونے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کردوں اور اقلیتوں کے حقوق سے متعلق حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے اور ان میں صدر ایردوان کے قریبی معاونین کی طرف سے کرپشن، اقربا پروری اور رقوم کی خرد برد کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹس بھی شائع کی جا رہی تھیں۔
تاہم، ترکی کے ٹیلی کام سیکٹر کی نگرانی کرنے والے ادارے BTK کا کہنا ہے کہ شہریوں کی طرف سے اطلاعات موصول ہوئیں کہ مذکورہ سوشل میڈیا سائٹس ان کی پرائیویسی میں مداخلت کر رہی تھیں، جس کی وجہ سے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔
بندش کا شکار ہونے والے اکاؤنٹس میں ڈیلی نیوز، فرسودے گیزٹ، ایتھا، ہلکین اور سیسی جیسے معروف اخبار اور جریدوں کے علاوہ کردوں کے حقوق کی حامی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) کے ٹویٹر اکاؤٹس بھی شامل ہیں۔
Turkey: 136 social media and news sites blocked in %27suffocating crackdown%27 on freedom of expressionhttps://t.co/aQnVnl9YJc
— News From Amnesty (@NewsFromAmnesty) August 6, 2019
انقرہ میں شہری سوشل میڈیا پر پابندیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
حزب اختلاف کی نیوز ویب سائیٹ Bianet.org کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ یہ نشریاتی ادارہ کردش زبان سمیت تین زبانوں میں براڈکاسٹ کرتا ہے۔ اس ادارے کے ایک ایڈیٹر فرید ڈیمرل نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بند کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ Bianet.org ہمیشہ پریس کی آزادی اور آزادیِ اظہار کو فروغ دیتا رہا ہے اور ترکی میڈیا کی آزادی کے حوالے سے عالمی فہرست میں کئی برس سے آخری نمبر پر ہے۔
ڈیمرل کا مزید کہنا تھا کہ اس بندش سے دو لاکھ کے لگ بھگ خبریں اور رپورٹیں بلاک ہو گئی ہیں۔
Today%27s media crackdown in #Turkey:-2 separate indictments filed against reporter @seyhanavsar over an article-73 Bar Assoc.s call for #Cumhuriyet journalists%27 release-Jailed journo #MehmetGüleş not given access to medical treatment after hunger strike#FreeTurkeyJournalists pic.twitter.com/6fManIbttZ
— IPI (@globalfreemedia) August 7, 2019
صحافت کی تنظیموں ’ایسوسی ایشن آف جرنلسٹس ان ٹرکی (TGC)‘، ’ترکی کے صحافیوں کی یونین (TGS)، ’جرنلسٹس ودآؤٹ بارڈرز‘ اور ’ایسوسی ایشن آف کنٹیمپریری جرنلسٹس (ACJ) ‘ نے اس بندش پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ میڈیا کی آزادی کی نفی کرتا ہے۔
تاہم، ترکی میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی طرف سے اس پابندی کے رد عمل میں ہیش ٹیگ #twitterisblockedinTurkey انتہائی مقبول ہو گیا اور سب سے اوپر ٹرینڈ کرتا رہا۔