ترکیہ کی شام میں کرد عسکریت پسندوں کے خلاف ’فوجی آپریشن‘ کی دھمکی

فائل فوٹو

  • اگر وائی پی جے نے انقرہ کے مطالبات تسلیم نہیں کیے تو ترکیہ وہ سب کرے گا جو ضروری ہے: ترک وزیرِ خارجہ
  • انٹرویو میں حاقان فیدان سے سوال کیا گیا کہ ترکیہ کیا اقدامات کر سکتا ہے تو حاقان فیدان کا جواب تھا کہ ’’فوجی آپریشن۔‘‘
  • بین الاقوامی جنگجو جو ترکیہ، ایران اور عراق سے آئے ہیں۔ ان کو فوری طور پر شام چھوڑنا ہوگا: حاقان فیدان
  • انہوں نے پُر امن انداز میں انتقالِ اقتدار سمیت ترکیہ کے مؤقف کے حوالے سے حاقان فیدان نے دیگر امور کا بھی ذکر کیا۔

ویب ڈیسک — ترکیہ نے شام میں کرد عسکریت پسندوں کو ’خون ریزی کے بغیر‘ انتقالِ اقتدار نہ کرنے کی صورت میں کارروائی کی دھمکی دی ہے۔

ترک وزیرِ خارجہ حاقان فیدان نے کہا ہے کہ اگر پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جے) نے انقرہ کے مطالبات تسلیم نہ کیے تو ترکیہ وہ سب کرے گا جو ضروری ہے۔

نشریاتی ادارے ’سی این این ترک‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ ترکیہ کیا اقدامات کر سکتا ہے؟ تو حاقان فیدان کا جواب تھا ’’فوجی آپریشن۔‘‘

شام میں کئی دہائیوں سے برسرِ اقتدار بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوئے ایک ماہ ہو چکا ہے۔ اُن کی حکومت ختم کرنے والے عسکریت پسندوں کی پشت پناہی ترکیہ کر رہا تھا۔

بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ ترکیہ شام میں کرد فورسز کے خلاف براہِ راست دخل اندازی کر سکتا ہے۔

انقرہ ان کرد فورسز کو ترکیہ میں علیحدگی کی مہم چلانے والے کرد عسکریت پسندوں سے جوڑتا ہے۔

ترکیہ الزام لگاتا ہے کہ وائی پی جے کے کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سے تعلقات ہیں۔ وائی پی جے کو مغربی ممالک داعش کے خلاف جنگ میں اہم فورس قرار دیتے ہیں۔

پی کے کے ایک طویل عرصے سے ترکیہ میں ریاست مخالف سرگرمیاں کرتی رہی ہے جب کہ ترکیہ سمیت اس کے مغربی اتحادی پی کے کے کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔

انٹرویو میں حاقان فیدان کا کہنا تھا کہ وہ بین الاقوامی جنگجو جو ترکیہ، ایران اور عراق سے شام میں آئے ہیں، انہیں جانا ہو گا۔

وائی پی جے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ذریعے اُسے الٹی میٹم دیا گیا ہے جو بالکل واضح ہے۔

شام میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والی برطانیہ میں قائم تنظیم ’سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ نے اتوار کو بتایا تھا کہ شام کے شمال میں ترکیہ کے حامی عسکریت پسندوں اور کرد فورسز میں گزشتہ کچھ دنوں میں جھڑپیں ہوئی ہیں جن میں 100 جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔

SEE ALSO: شام میں تمام اسلحہ ریاست کی تحویل میں لیا جائے گا، نئے حکمران کی بین الاقوامی وفود سے ملاقاتیں

شام کے شمال میں ترکیہ کے حامی عسکریت پسندوں نے اسی وقت کرد فورسز کے ساتھ مسلح تصادم شروع کیا تھا جب 27 نومبر 2024 کو بشار الاسد کے خلاف مسلح فورسز نے پیش قدمی شروع کی تھی اور آٹھ دسمبر کو دمشق پر قابض ہو گئے تھے۔

فوجی کارروائی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ابھی اس حوالے سے ترکیہ کوئی تیاری نہیں کر رہا اور نہ ہی ابھی اس سمت میں کوئی ارادہ ہے۔ البتہ ان کے بقول ’’ابھی ہم انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

ترکیہ نے 2016 میں شام میں فوج کے ذریعے زمینی کارروائی کی تھی اور کرد فورسز کو اپنی سرحد سے دور کر دیا تھا۔

ترک وزیرِ خارجہ کے مطابق شام میں اگر نئی انتظامیہ ان جیلوں اور حراستی مراکز کا انتظام نہیں سنبھال سکتی جہاں داعش کے جنگجو موجود ہیں، تو ترکیہ کے پاس ان کا انتظام سنبھالنے کی صلاحیت موجود ہے۔

انہوں نے رجب طیب ایردوان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ترک صدر نے ہدایت کی ہے کہ اگر کوئی اور ان کا انتظام نہیں سنبھال سکتا تو ترکیہ اپنی فوج کے ذریعے یہ کر سکتا ہے اور انقرہ اس کے لیے تیار ہے۔

شام میں بشار الاسد حکومت گرانے والی عسکری تنظیم ’ہیٔت تحریر الشام‘ کے طویل عرصے سے ترکیہ کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اس تنظیم کے سربراہ احمد الشرع نے حالیہ دنوں میں سعودی نشریاتی ادارے ’العربیہ‘ کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ کرد فورسز کو شام کی قومی فوج میں ضم ہو جانا چاہیے۔

SEE ALSO: شام میں انتخابات کے لیے چار برس درکار ہیں، پہلے آئین سازی ہو گی: احمد الشرع

حاقان فیدان نے گزشتہ ماہ دمشق میں احمد الشرع سے ملاقات کی تھی۔ ان کے بقول شام کی نئی قیادت وائی پی جے کے معاملے کو دیکھے گی۔

انٹرویو کے دوران ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ترکیہ ضروری اقدامات کر رہا ہے؟ جس پر حاقان فیدان کا کہنا تھا کہ ہمیں انہیں وقت دینے کی ضرورت ہے۔ دمشق کی نئی انتظامیہ اور وائی پی جے کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔

ترک وزیرِ خارجہ کے مطابق شام کے نئے حکمران وائی پی جے سے لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہیں جنگ سے خوف نہیں آتا۔ انہوں نے دمشق پر قبضہ لڑائی سے ہی کیا ہے۔

شام میں موجود کرد جنگجوؤں کے حوالے سے ان کہنا تھا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ترکیہ یا شام کی نئی انتظامیہ خطے میں کوئی فوجی آپریشن نہ کرے تو ان کے لیے شرائط واضح ہیں۔ تاہم انہوں نے الزام عائد کیا کہ وائی پی جے مزید وقت لے رہی ہے۔

SEE ALSO: بشار الاسد کے بعد کا شام: اب کیا ہو رہا ہے؟

انٹرویو میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ وائی پی جے کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے تو کیا اس صورتِ حال میں بھی ترکیہ شام میں مداخلت کر سکتا ہے؟ تو حاقان فیدان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ شام کے علاقوں عفرین، راس العین اور تل ابیض میں ایسا کیا جا چکا ہے۔

انہوں نے شام کے ان علاقوں کا ذکر کیا جہاں ماضی میں ترکیہ نے وائی پی جے کو نشانہ بنایا تھا۔

حاقان فیدان نے کہا کہ یہ ترکیہ کی قومی سلامتی کا تقاضہ ہے۔ انقرہ کے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہے۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے اے ایف پی سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔