ترکیہ کے صدر ایردوان نے جمعرات کو جنوبی افریقہ میں اپنے ہم منصب سیریل راما فوسا کو ایک ٹیلی فون کال کےدوران بتایا کہ وہ اقوام متحدہ کی اعلی ترین عدالت میں جنوبی افریقہ کے اس مقدمے کا خیر مقدم کرتے ہیں جس میں اسرائیل پر غزہ میں فلسطینیوں کی ’نسل کشی‘ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
جنوبی افریقہ نے بین الاقوامی عدالت انصاف سے یہ درخواست بھی کی ہے کہ وہ اسرائیل کو اپنے حملے روکنے کا حکم دے،یہ موجودہ جنگ پر دی ہیگ،نیدرلینڈز میں عدالت میں پیش کیا جانے والا ایسا پہلا چیلنج ہے ۔اسرائیل نے اس کیس کو اور الزامات کو ناراضگی کے ساتھ مسترد کر دیا ہے اور عدالت سے مقدمہ خارج کرنے کی درخواست کی ہے ۔
SEE ALSO: اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کا مقدمہ اور عالمی عدالت انصاف؟عدالت غزہ میں اسرائیل کو اپنی کارروائی روکنے سمیت جنوبی افریقہ کی جانب سے عبوری احکامات کی درخواست پر 26 جنوری کو ایک فیصلہ جاری کرے گی۔
انقرہ کے ایک بیان کے مطابق، ایردوان نے رامافوسا کو ایک ٹیلی فون کال کےدوران کہا کہ ترکیہ اس چیز کو یقینی بنانے کے لیے کا م کرے گا کہ یہ مقدمہ بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے مطابق اختتام پذیر ہو اور یہ کہ اسرائیل کو وہ سزا ملنی چاہیے جس کا وہ مستحق ہے۔
ایردوان جو غزہ میں اسرائیل کے حملے کے کھلم کھلا نقاد ہیں، کہہ چکے ہیں کہ انقرہ نے عدالت کو وہ دستاویزات فراہم کی ہیں جو اسرائیل کے خلاف کیس میں استعمال کی جا رہی ہیں۔
SEE ALSO: ترکیہ اسرائیل کے خلاف قتل عام کی سماعتوں میں دستاویزات فراہم کررہا ہے: ایردواناسرائیل کے وکیل میلکم شاو نے گزشتہ سماعت کے دوران عدالت میں یہ جواز پیش کرتے ہوئے اسرائیل کا دفاع کیا تھاکہ وہ اپنے دفاع کے لیے کارروائی کررہا ہے اور وہ فلسطینی آبادی سے نہیں، حماس سے لڑ رہا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی عدالت انصاف سےاپیل کی کہ وہ اس کیس کو بے بنیاد قرار دے کر خارج کر دے اور اسے نسل کشی نہ قرار دے کر مسترد کر دے۔
Your browser doesn’t support HTML5
۔
اسرائیل کی وزارت خارجہ کے لیگل ایڈوائزر،تال بیکر نے عدالت کو بتایا تھا کہ اسرائیلی اور فلسطینی شہریوں، دونوں کی ہولناک مشکلات حماس کی جنگی حکمت عملی کا نتیجہ ہیں۔
بیکر نے کہا،”اگر نسل کشی کی کچھ کارروائیاں ہوئی ہیں تو وہ اسرائیل کے خلاف کی گئی ہیں۔"
SEE ALSO: عالمی عدالت میں اسرائیل کی نسل کشی کے الزامات کی تردیدعدالت غزہ میں اسرائیل کو اپنی کارروائی روکنے سمیت جنوبی افریقہ کی جانب سے عبوری احکامات کی درخواست پر جمعے کو ایک فیصلہ جاری کرے گی۔
وہ اس وقت قتل عام کے الزامات پر فیصلہ نہیں دے گی۔ اس معاملے میں عدالتی کارروائیوں میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
سن 1948 کا جینو سائڈ(نسل کشی ) کنونشن ،جسے نازی ہولوکاسٹ میں یہودیوں کے قتل عام کے حوالے سے نافذ کیا گیا تھا، نسل کشی کو کسی پوری قوم یا کسی نسلی یا مذہبی گروپ کی مکمل یا جزوی تباہی کے مقصد سے کی گئی کارروائیاں قرار دیتا ہے۔
SEE ALSO: غزہ میں نسل کشی کا مشاہدہ نہیں ہوا: امریکہانٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس یا آئی سی جے کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں اور ان کے خلا ف اپیل نہیں ہو سکتی ، لیکن عدالت کے پاس ان پر عمل درآمد کروانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے ۔
اسرائیل نے سات اکتوبر کے بعد غزہ کی جنگ اس وقت شروع کی تھی جب حماس نے جس نے اسرائیل کی تباہی کی قسم کھائی ہے ، اپنے عسکریت پسندوں کے ذریعے سرحد پارحملہ کیا ، جس میں اسرائیل نے کہا ہے کہ1140 لوگ ہلاک ہوئے اور 240 کو یرغمال بنایا گیا۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔