ترکی میں سوشل میڈیا کے نئے قوانین کے تحت فیس بک اور ٹوئٹر سمیت دیگر تین سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر 12، 12 لاکھ ڈالرز جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
ترک حکومت نے بدھ کو ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جرمانہ سوشل میڈیا کے نئے قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر کیا ہے جن کے تحت ان پلیٹ فارمز کو ملک میں اپنے نمائندے مقرر کرنے تھے۔
ترکی میں سوشل میڈیا کے حوالے سے رواں سال جولائی میں نئے قوانین بنائے گئے تھے جن پر یکم اکتوبر سے عمل درآمد کے لیے کہا گیا تھا۔
سوشل میڈیا قوانین کی خلاف ورزی پر فیس بک، انسٹاگرام، ٹوئٹر، پیری اسکوپ، یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر ایک ایک کروڑ لیرا (تقریباََ 12 لاکھ ڈالرز) کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
جرمانے کا اعلان ترکی کے انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی اتھارٹی کے چیئرمین عمر فاتح نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے کیا۔
نئے قوانین کے تحت مذکورہ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے دسمبر تک ترکی میں اپنے دفاتر نہ کھولے تو ان پر مزید جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ یہ جرمانہ تین کروڑ لیرا تک ہو سکتا ہے۔
قانون کے تحت جنوری تک قانون پرعمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں ان پلیٹ فارمز پر اشتہارات پر بھی پابندی لگا دی جائے گی۔
جولائی میں منظور کیے جانے والے نئے قوانین کے تحت 10 لاکھ سے زائد صارفین رکھنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو ترکی میں اپنا نمائندہ مقرر کرنا لازمی ہو گا جو عدالت کے حکم پر متنازع مواد ہٹانے میں معاونت کرے گا۔ ایسا نہ کرنے والی کمپنی کو بھاری جرمانہ دینا ہو گا۔
سوشل میڈیا قوانین پر مکمل عمل نہ کرنے والے پلیٹ فارمز کو اشتہارات کی بندش، بینڈوتھ میں 50 فی صد کمی اور پانچویں و آخری مرحلے میں 90 فی صد بینڈوتھ میں کمی کا سامنا کرنا ہوگا۔
عمر فاتح کا کہنا ہے کہ اگر کمپنیاں قانون پر عمل درآمد کرتی ہیں تو پابندیاں ختم کر دی جائیں گی جب کہ جرمانے کا بھی صرف ایک چوتھائی حصہ وصول کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ ترک پارلیمنٹ نے جولائی میں سوشل میڈیا کے حوالے سے قانون منظور کیا تھا۔ جس کے بعد مبصرین آزادیٔ اظہار سے متعلق خدشات جنم لینا شروع ہوئے۔
ترک پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے نئے قانون کے تحت بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اپنے نمائندوں کی ترکی میں موجودگی کو یقینی بنانا ہو گا اور مخصوص مواد ہٹانے سے متعلق عدالتی احکامات پر عمل کرنا ہو گا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق ڈیجیٹل رائٹس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بینڈوتھ میں کمی کا آغاز اپریل میں ہو گا جو مئی میں 90 فی صد کم کرنے تک پہنچ سکتا ہے جس کے نتیجے میں ان پلیٹ فارمز کو استعمال کرنا نا ممکن ہو جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اب تک صرف روس کی ایک پرائیوٹ کمپنی وی کے نے ترکی میں اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان سوشل میڈیا پر سیاسی رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر متحرک بھی رہتے ہیں۔ ان کے ٹوئٹر پر فالوورز کی تعداد ایک کرور 70 لاکھ سے زائد ہے لیکن ان کے دور حکومت میں سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والے مواد پر پابندیاں عائد کی جاتی رہی ہیں۔ صدر پر تنقیدی مواد پر پابندی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
صدر اردوان نے 2014 میں سوشل میڈیا پر موجود مواد پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس پر مکمل پابندی کی دھمکی دی تھی۔
ترک عدالتوں میں بھی گزشتہ چند برس کے دوران ٹوئٹر سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے مواد ہٹانے کے لیے درخواستیں دائر کی جاتی رہی ہیں۔