امریکہ میں منظرِ عام پر آنے والی ایک نئی کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2020 کے آغاز میں ہی اندازہ تھا کہ کرونا وائرس امریکہ میں کتنا ہلاکت خیز ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے امریکی شہریوں سے حقیقت چھپائی اور اُنہیں وبا کی شدت سے متعلق آگاہ نہیں کیا۔
یہ دعویٰ معروف امریکی صحافی باب وڈورڈ نے اپنی نئی کتاب 'Rage' میں کیا ہے جس کے بعض اقتباسات بدھ کو اخبار واشنگٹن پوسٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ نے شائع کیے ہیں۔
کتاب کے مطابق رواں برس 28 جنوری کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والے ایک اجلاس کے دوران مشیر برائے قومی سلامتی رابرٹ سی اوبرائن نے صدر ٹرمپ کو خبردار کر دیا تھا کہ کرونا وائرس ان کے دورِ صدارت کا سب سے بڑا اور مشکل ترین مسئلہ ثابت ہو گا۔
واضح رہے کہ یہ وہی وقت تھا جب کرونا وائرس نے چین کی سرحدوں سے نکل کو باقی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا تھا۔
اس اجلاس کے 10 روز بعد باب وڈورڈ کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں صورتِ حال اس سے کہیں زیادہ خوف ناک ہے۔
سات فروری کو ہونے والی اس ٹیلی فون کال کے دوران صدر نے کہا تھا کہ یہ مرض شدید ترین فلو سے بھی کہیں زیادہ پیچیدہ اور ہلاکت خیز ہے جو سانس کے ذریعے بھی منتقل ہو سکتا ہے۔
لیکن کتاب کے مطابق عین اسی دوران صدر ٹرمپ امریکی عوام کو یہ بتا رہے تھے کہ وائرس جلد ہی ختم ہو جائے گا اور یہ موسمی فلو سے زیادہ خطرناک نہیں۔ صدر نے بارہا یہ کہا تھا کہ صورتِ حال امریکی حکومت کے قابو میں ہے۔
مذکورہ کتاب کے لیے باب وڈورڈ نے صدر ٹرمپ کے ساتھ گزشتہ چھ ماہ کے دوران 18 بار ٹیلی فون پر انٹرویوز کیے۔
19 مارچ کو ہونے والی گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ انہوں نے جان بوجھ کر کرونا وائرس سے لاحق خطرے کی سنگینی کا اظہار نہیں کیا تھا تاکہ عوام میں خوف نہ پھیلے۔
SEE ALSO: ماسک کے حق میں ہوں، لیکن پہننا لازمی نہیں کروں گا، صدر ٹرمپبدھ کو کتاب کے اقتباسات منظرِ عام پر آنے اور امریکی ذرائع ابلاغ میں اس بارے میں چلنے والی خبروں کے بعد وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ صدر امریکی قوم کو خوف و ہراس سے بچانا چاہتے تھے اور قائدین ایسا ہی کرتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیلی میکنینی نے اپنے ردِ عمل میں کہا کہ کرونا وائرس سے نمٹنے میں صدر ٹرمپ نے مثالی کردار ادا کیا اور انہیں ہمیشہ سے ہی اس بات کا اندازہ تھا کہ اس وائرس سے کتنا جانی نقصان ہو سکتا ہے۔
ترجمان کے بقول صدر نے مارچ میں ہی خبردار کر دیا تھا کہ وائرس کتنا مہلک ہے اور اس کی وجہ سے امریکہ میں ایک سے دو لاکھ تک اموات ہو سکتی ہیں۔
باب وڈورڈ کی اس کتاب کے اقتباسات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب امریکہ کے صدارتی انتخاب میں دو ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ انتخابی مہم شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کتاب میں کیے جانے والے انکشافات کو ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں اپنی اپنی انتخابی مہم میں اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔
ری پبلکنز کی کوشش ہو گی کہ وہ یہ ثابت کریں کہ امریکی عوام کو خوف زدہ ہونے سے بچانے کی پالیسی صدر کی قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار ہے۔ اس کے برعکس ڈیموکریٹس کا استدلال ہو گا کہ حقائق چھپانے کی کوشش ایک غلط فیصلہ تھا جس کی وجہ سے کرونا کا بحران مزید سنگین ہو گیا۔
کرونا وائرس سے اب تک امریکہ میں لگ بھگ ایک لاکھ 90 ہزار اموات ہو چکی ہیں جب کہ وائرس کا شکار ہونے والے امریکیوں کی تعداد 63 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اموات اور مریضوں کی تعداد، دونوں اعتبار سے امریکہ دنیا بھر میں کرونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔