صدر ٹرمپ کی جانب سے جوہری پروگرام پر شمالی کوریا کے صدر کی براہ راست مذاکرات کی دعوت قبول کیے جانے کے ماہرین اور تجزیہ کار اس پہلو پر غور کر رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان عشروں سے جاری شدید تناؤ کی صورت حال میں یہ ملاقات ہو بھی سکے گی اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو اس کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔
امریکہ کے ان سابق امریکی عہدے داروں اور تجزیہ کاروں نے جو شمالی کوریا سے تفصیلی طور پر نمٹ چکے ہیں کہا ہے کہ اب جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے خاتمے کے لیے ایک ایسا سفارتی مشن شروع کیا ہے جس کی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں ہے ، انہیں پیچیدہ غیر یقینی مسائل کا سامنا ہے ۔
وائٹ ہاؤس نے جمعرات کے روز اعلان کیا تھا کہ صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے لیڈر کم جون ان کی جانب سے ملک کے جوہری پروگرام پر گفتگو کا دعوت نامہ قبول کر چکے ہیں، جس سے امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان لگ بھگ ایک عشرے تک قائم رہنے والے سفارتی تعطل ٹوٹنے کی امیدیں از سر نو پیدا ہو گئی ہیں۔
اگر یہ سر براہی اجلاس ہو گیا تو اس سے ٹرمپ کو دنیا کے ایک سب سے مشکل مسئلے کے حل کے لیے اپنے پیش رووں سے بہتر موقع مل جائے گا۔ سینٹر فار نیول انیلیسزمیں بین الاقوامی أمور کے گروپ کے ڈائریکٹر کین گوسےنے اس اعلان کو غیر معمولی اور تاریخی قرار دے کر اس کا خیر مقدم کیا۔
الیکزینڈر ورشوبو نے جو جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کے دور میں سول میں امریکی سفیر رہ چکے ہیں کہا کہ دعوت نامے کو قبول کرنا صدر کے لیے ایک درست فیصلہ تھا۔
انہوں نے کم کی جانب سے جوہری پروگرام کے خاتمے اور مذاکرات کے دوران مزید کسی جوہری تجربے سے گریز کرنے کے وعدے کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ پیانگ یانگ جوہری مذاکرات کی بحالی کے لیے امریکہ کی شرائط پوری کر چکا تھا ۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سابق عہدے دار ایونز ریورنے جو شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں کہا کہ پیانگ یانگ جنوب میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے ۔