افغانستان سے ملحقہ خیبر پختونخوا کے دو قبائلی اضلاع شمالی اور جنوبی وزیرستان میں فائرنگ کے دو مختلف واقعات میں ایک قبائلی رہنما اور لیکچرار کو قتل کر دیا گیا ہے۔ دونوں واقعات میں حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
جنوبی وزیرستان میں پولیس حکام نے بتایا ہے کہ نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ٹیکنیکل کالج وانا سے منسلک ایک لیکچرار ہلاک ہو گئے۔
ضلعی پولیس افسر کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اتوار کو وانا میں گورنمنٹ ٹیکنیکل کالج وانا کے لیکچرار رحمت اللہ وزیر اپنے دوستوں کے ساتھ وانا بازار میں واقع ایک انگلش اکیڈمی میں بیٹھے تھے کہ نامعلوم افراد نے فائرنگ کر دی جس سے وہ موقع پر ہلاک ہو گئے۔
واردات کے بعد موٹر سائیکل پر سوار حملہ اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ البتہ پولیس کے مطابق جنوبی وزیرستان کو ملانے والی اہم سڑکوں پر ناکہ بندی کی گئی ہے۔
بیان کے مطابق نامعلوم حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کر کے مزید تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
شمالی وزیرستان میں قبائلی رہنما کا مبینہ قتل
ادھر شمالی وزیرستان کے انتظامی مرکز میران شاہ میں پولیس حکام نے ضلع کے دوسرے بڑے قصبے میر علی کے نواحی گاؤں ہرمز میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے قبائلی رہنما ملک صلاح الدین کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔
پولیس عہدیداروں کے مطابق پتسی اڈہ کے قریب موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم افراد نے ہرمز گاؤں سے تعلق رکھنے والا قبائلی رہنما ملک صلاح الدین پر جدید خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہلاک ہو گیا۔
فائرنگ کے بعد مبینہ ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تاہم بیان کے مطابق پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر تحقیقات شروع کر دی ہیں جب کہ لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ
شمالی اور جنوبی وزیرستان میں گزشتہ کئی ہفتوں سے تشدد اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
جون میں شمالی وزیرستان میں تشدد اور دہشت گردی کے 15 واقعات میں گھات لگا کر قتل کے آٹھ واقعات میں مجموعی طور پر 12 افراد ہلاک ہوئے تھے جس میں ایک اسکول ٹیچر کے علاؤہ پولیس کے دو اہل کار بھی شامل تھے۔
جنوبی وزیرستان کے شمالی وزیرستان سے ملحقہ علاقے لدھا تحصیل کے مختلف دیہات میں سیکیورٹی فورسز اور عام لوگوں پر مبینہ عسکریت پسند پر تشدد حملے کرتے رہتے ہیں۔
پولیس کا مؤقف
شمالی وزیرستان کے ضلعی پولیس افسر شفیع اللہ گنڈاپور کا کہنا ہے کہ گھات لگا کر قتل کے زیادہ تر واقعات ذاتی اور قبائلی دشمنیوں کا شاخسانہ ہیں۔
انہوں نے مجموعی طور پر علاقے میں امن و امان کی صورتِ حال کو اطمینان بخش قرار دیا۔ البتہ، سیاسی اور سیکیورٹی تجزیہ کار وزیرستان میں ہونے والے دہشت گردی اور تشدد کے واقعات کو افغانستان کے بدلتی ہوئی صورت حال سے جوڑتے ہیں جہاں پر امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان عسکریت پسند ایک بار پھر متحرک ہو رہے ہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے چند روز قبل شمالی وزیرستان کے تحصیل دتہ خیل میں عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپ میں دو اہل کاروں کے ہلاک اور دو کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔