’پاکستان کی معیشت مشکل میں‘؛ کیا سرمایہ کاروں کا اعتماد ختم ہو رہا ہے؟

فائل فوٹو

پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں جمعرات کو رواں برس کی سب بڑی گراوٹ دیکھی گئی۔ اسٹاک مارکیٹ کے ہنڈریڈ انڈیکس میں 2135 پوائنٹس کی کمی آئی یعنی مارکیٹ سے تقریباً پانچ فی صد سرمایہ کم ہو گیا۔ دوسری جانب ملکی درآمدات میں اضافے اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے معیشت عدم استحکام کا شکار ہے اور اس صورتِ حال میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق جمعرات کے روز آنے والی کمی پاکستان اسٹاک مارکیٹ کی تاریخ میں تیسری بڑی گراوٹ ہے۔ اس سے قبل ایسی گراوٹ 16 مارچ 2020 کو دیکھی گئی تھی جب ایک ہی روز میں مارکیٹ میں 2376 پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی تھی۔ جب کہ 24 مارچ 2020 کو بھی مارکیٹ میں 2103 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی تھی۔

معاشی ماہرین کے خیال میں اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی درحقیقت ملک کی خراب ہوتی ہوئی معاشی حالت اور منفی معاشی اعشاریوں کی علامت ہے۔

ماہرین کہتے ہیں ملکی معیشت سے متعلق کئی بُری خبروں کے باعث مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔

معاشی میدان میں ریسرچ سے منسلک اسپیکٹرم سیکیورٹیز کے ہیڈ آف ریسرچ عبدالعظیم کے مطابق اسٹاک مارکیٹ کے کریش کی سب سے بڑی اور اہم وجہ نومبر میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے تجارتی خسارے کا سامنے آنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو صرف ایک ماہ میں پانچ ارب ڈالر سے بھی زائد کے تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑا جو معیشت کے لیے بڑا دھچکہ ہو سکتا ہے۔

SEE ALSO: پاکستان میں کرونا اخراجات میں 40 ارب کی 'بے ضابطگیاں' کیسے اور کیوں ہوئیں؟

اعداد و شمار کے پاکستان نے نومبر میں تقریباً آٹھ ارب ڈالرز کی درآمدات کیں جب کہ برآمدات محض دو ارب 90 کروڑ ڈالرز تک ہی رہیں۔ اس طرح رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ یعنی جولائی سے نومبر کی بات کی جائے تو مجموعی تجارتی خسارہ بڑھ کر 20 ارب 75 کروڑ ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران سے 117 فی صد زیادہ ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتِ حال برقرار رہی تو سال کے آخر میں تجارتی خسارہ 45 ارب ڈالرز سے تجاوز کرجائے گا۔

دوسری جانب ترجمان وزارتِ خزانہ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ ماہ میں ایک ارب 75 کروڑ ڈالر کی کرونا سے بچاؤ کی ویکسین منگوائی گئی۔ پھر اس کے علاوہ چینی، گندم اور کپاس بھی باہر سے منگوائی گئی۔ لیکن آنے والے مہینوں میں درآمدی بل میں کمی کے آثار نظر آرہے ہیں۔

عبدالعظیم کے مطابق پاکستان میں مہنگائی 20 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچتے ہوئے دہرے ہندسوں میں داخل ہوچکی ہے۔ مہنگائی کی یہ شرح اکتوبر میں 9.2 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی جو اب 11.5 فی صد پر آچکی ہے۔ ان کے بقول ملک میں حالیہ مہنگائی کی شرح میں اضافے نے بھی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کیا ہے۔

حالیہ پینے کی اشیا میں بھی حالیہ مہینوں کے دوران اضافہ ہوا ہے۔

ادارہ شماریات کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں تازہ سبزی، پھلوں، گوشت، خوردنی تیل، دودھ، انڈوں، دالوں، چاول اور دیگر غذائی اشیاء کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ، فریٹ ریٹس میں ہوشربا اضافہ، روپے کی قیمت میں کمی اور دیگر وجوہات بتائی گئی ہیں۔

ماہرین کے خیال میں اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کی تیسری اہم وجہ حکومتی امور چلانے کے لیے قرض حاصل کرنے پر بینکوں کے لیے شرح سود بڑھانے کا فیصلہ ہے۔

حکومت نے کمرشل بینکوں سے قرضہ حاصل کرنے کے لیے جاری کردہ تین ماہ کے مارکیٹ ٹریژری بلز (ٹی بلز) کی شرح سود 8.5 فی صد سے بڑھا کر 10.78 فی صد کر دی ہے۔ اسی طرح 6 ماہ اور 12 ماہ کے ٹی بلز کی شرح سود بھی بڑھا کر 11.5 فی صد کردی گئی ہے۔

عبدالعظیم کے خیال میں ایسا لگ رہا ہے کہ 14 دسمبر کو مرکزی بینک شرح سود میں مزید 1.5 فی صد اضافہ کر دے گا جب کہ نومبر ہی کے مہینے میں اس میں 1.5 فی صد کا اضافہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ شرح سود میں مسلسل اضافے کی وجہ سے سرمایہ کار اپنا سرمایہ ایکویٹی فنڈ یعنی اسٹاک مارکیٹ سے نکال کر فکسڈ انکم فنڈز یعنی ٹریژری بلز، پاکستان انویسٹمنٹ بانڈ (پی آئی بی) یا بینک ڈپازٹس میں لگا رہے ہیں تاکہ انہیں منافع کی شرح اچھی مل جائے اور اس میں رسک کا عنصر بھی کم ہوتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان میں مہنگائی: کیا قوتِ خرید میں بھی اضافہ ہوا ہے؟

اسٹاک مارکیٹ کے امور ایک اور ماہر سلمان احمد نقوی کا کہنا ہے کہ تجارتی خسارے کی وجہ سے روپے کی قیمت میں مسلسل گراوٹ بھی مارکیٹ میں مندی کی وجوہات میں سے ایک ہے۔

انہوں نے کہا کہ روپیہ پچھلے صرف چھ ماہ میں لگ بھگ 15 فی صد کے قریب قدر کھو چکا ہے جب کہ جمعرات کو انٹر بینک میں روپے کے مقابلے ڈالر کی قیمت 94 پیسے اضافے کے ساتھ 176 روپے 42 پیسے ریکارڈ کی گئی۔

سلمان احمد نقوی کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دو سال میں دس ارب ڈالر سے زائد صرف گاڑیوں اور فون جیسی لگژری آئٹمز کی بیرونِ ملک سے خریداری میں خرچ کیے گئے جس سے روپے پر بے تحاشہ دباؤ بڑھ گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ اب جلد سے جلد سعودی عرب سے ملنے والے تین ارب ڈالرز کے ڈپازٹس اور آئی ایم ایف سے قرض کی قسط ملنے کی صورت میں ہی روپے کی قدر میں کوئی استحکام آسکتا ہے۔

ان کے خیال میں فی الحال بہت سے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ حکومت سے معیشت کی موجودہ صورتِ حال سنبھل نہیں پارہی اور مستقبل کے حالات غیر یقینی کا شکار ہیں۔ اور ایسی صورت میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بُری طرح مجروح ہو رہا ہے۔

کیا کچھ اچھا بھی ہورہا ہے؟

سلمان نقوی کے مطابق عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں مسلسل گررہی ہیں اور تیل کی قیمت 87 ڈالر سے کم ہو کر 70 ڈالر سے نیچے چلی گئی ہے۔ کوئلے اور دیگر اجناس کی قیمتیں بھی معمولی نیچے آئی ہیں۔ جو اس وقت پاکستان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔

پاکستان کا زیادہ تر انحصار مذکورہ اشیاء کی خریداری پر ہے اور امید ظاہر کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی آئے گی اور چیزیں بہتری کی جانب گامزن ہوسکیں گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ اسٹیٹ بینک شرح سود مزید نہ بڑھائے۔ اور یوں سرمایہ کاروں کو پھر سے رغبت ملے کہ وہ اپنا پیسہ بینکوں میں رکھنے کے بجائے کاروبار کے فروغ میں لگائیں۔