سینیٹ الیکشن: خیبر پختونخوا میں ن لیگ، اے این پی اور جماعتِ اسلامی کا اتحاد

خیبر پختونخوا اسمبلی (فائل فوٹو)

اتحاد کا زیادہ فائدہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ہوگا کیوں کہ صوبے سے ٹیکنو کریٹ کی نشست پر عوامی نیشنل پارٹی اور جماعتِ اسلامی کا کوئی امیدوار انتخاب نہیں لڑ رہا۔

پاکستان میں منگل کو ہونے والے سینیٹ کے انتخابات کے سلسلے میں صوبہ خیبر پختونخوا میں تین مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کے مابین اتحاد ہوگیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن)، جماعتِ اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنمائوں نے جمعے کو پشاور میں ایک مختصر اجلاس کے بعد اعلان کیا کہ وہ ایک دوسرے کو سینیٹ کے انتخابات میں مدد فراہم کرینگے۔

صوبائی اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس اتحاد کی تصدیق کی ہے۔

اُنھوں نے وی او اے کو بتایا کہ ٹیکنو کریٹس کی نشست پر تینوں جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو ووٹ دیں گی جب کہ خواتین کی نشست پر جماعتِ اسلامی کے ارکان اے این پی کے امیدوار کو بطور پہلی ترجیح اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو دوسری ترجیح کے طور پر ووٹ دیں گے۔

سردار بابک نے بتایا کہ معاہدے کے تحت اے این پی کے ارکانِ اسمبلی جنرل نشست پر جماعتِ اسلامی کے امیدوار کو دوسری ترجیح کے طور پر ووٹ دیں گے۔

بظاہر تینوں جماعتوں کے رہنما اس اتحاد پر خوش اور مطمئن نظر آرہے ہیں لیکن اس اتحاد کا زیادہ فائدہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ہوگا کیوں کہ صوبے سے ٹیکنو کریٹ کی نشست پر عوامی نیشنل پارٹی اور جماعتِ اسلامی کا کوئی امیدوار انتخاب نہیں لڑ رہا۔

صوبے کی حکمران جماعت پاکستانِ تحریک انصاف کے علاوہ صوبائی اسمبلی میں موجود دیگر جماعتوں کے مابین بھی ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کے لیے کئی دنوں سے بات چیت جاری ہے جو ابھی تک بار آور ثابت نہیں ہوئی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت کا حصہ ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) اور اے این پی حزبِ اختلاف میں ہیں۔

خیبر پختونخوا سے خالی ہونے والی سینیٹ کی 11 نشستوں پر منگل کو ووٹ ڈالے جائیں گے جس کے لیے 24 امیدواروں میں مقابلہ ہے۔

صوبے سے ایوانِ بالا کی سات جنرل نشستوں پر 12 جب کہ ٹیکنوکرٹیس اور خواتین کی دو، دو نشستوں پر بالترتیب پانچ اور سات امیدوار میدان میں ہیں۔

دریں اثنا پشاور ہائی کورٹ نے اسپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر اور وزیرِ اعلٰی پرویزخٹک کو حکم دیا ہے کہ وہ سینیٹ کے انتخابات سے قبل تحریکِ انصاف کے نومنتخب اقلیتی رکن بلدیو کمار کی حلف برداری کا عمل مکمل کریں ورنہ دونوں رہنماؤں کو توہینِ عدالت کے کیس میں طلب کیا جائے گا۔

بلدیو کمار پر تحریکِ انصاف ہی کے سابق رکنِ صوبائی اسمبلی اور وزیرِ اعلی کے مشیر سردار سورن سنگھ کے قتل کا الزم ہے اور وہ گزشتہ دو سال سے جیل میں ہیں۔

تاہم پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے ان سے رکنِ اسمبلی کا حلف لینے کا حکم ملنے کے بعد سردار بلدیو کو جمعرات کو اسمبلی لایا گیا تھا لیکن ارکان کی ہنگامہ آرائی کے باعث انہیں بغیر حلف کے ہی دوبارہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

حلف برداری نہ ہونے پر سردار بلدیو نے اسپیکر اور بعض ارکانِ اسمبلی کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست دائر کی تھی جس پر عدالت نے سینیٹ انتخاب سے قبل ان سے اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھوانے کا حکم دیا ہے۔