بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک ریاستی وزیر کے قافلے پر دستی بم کے حملے میں کم از کم تین افراد ہلاک اور 39 زخمی ہوگئے ہیں۔
حکام کے مطابق مُشتبہ عسکریت پسندوں نے جمعرات کو دارالحکومت سری نگر سے 45 کلو میٹر جنوب میں واقع ترال قصبے میں کشمیر کے وزیرِ تعمیرات سید نعیم اختر اندرابی کے قافلے کو دستی بم سے نشانہ بنایا۔
دستی بم ترال کے مرکزی بس اڈے کے باہر ایک مصروف سڑک پر گر کر پھٹا اور اس کی زد میں آکر ایک خاتون سمیت دو شہری موقع ہی پر ہلاک ہوگئے جب کہ 40 افراد جن میں بھارت کی وفاقی پولیس فورس 'سی آر پی ایف' کے سات اہلکار بھی شامل ہیں زخمی ہوئے۔
زخمیوں میں سے ایک اور شہری بعد ازاں اسپتال میں چل بسا۔ مارے گئے افراد کی شناخت غلام نبی پراگ، محمد اقبال خان اور پِنٹی کور کے ناموں سے کی گئی ہے۔
البتہ پولیس نے صرف دو شہریوں کے مارے جانے کی تصدیق کی ہے۔ لیکن ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ "دستی بم کے دھماکے کی جس میں تین معصوم شہریوں کی جانیں چلی گئیں وسیع پیمانے پر مذمت کی جارہی ہے۔"
واقعے میں وزیر کے کارواں میں شامل دو گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا اور ان میں سوار دو سرکاری انجینئر اور اُن کا ایک ڈرائیور بھی زخمی ہوگئے۔
مقامی لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ دستی بم کے حملے کے بعد پولیس اہلکاروں نے اندھا دھند گولیاں اور چھرے چلائے جس کے نتیجے میں کئی راہ گیر زخمی ہوگئے۔
سیکڑوں مشتعل افراد نے ترال کے سب ڈسٹرکٹ اسپتال کے باہر، جہاں زخمیوں کو داخل کرایا گیا ہے، پولیس کی کارروائی کے خلاف مظاہرہ کیا اور بھارت اور سی آر پی ایف کے خلاف نعرے لگائے۔
اگرچہ حکام نے اس الزام کی تردید کی ہے لیکن سری نگر کے مرکزی سرکاری اسپتال 'سری مہاراجہ ہری سنگھ اسپتال' میں ترال واقعے میں زخمی ہونے والے ایسے کم از کم نصف درجن افراد کو لایا گیا ہے جنہیں اسپتال کے ایک اہلکار کے مطابق چھرے لگے ہیں۔
تاہم چیف میڈیکل افسر کا کہنا ہے کہ ان افراد کو دستی بم کے ذرے لگنے سے زخم آئے ہیں۔
وزیرِ تعمیرات نعیم اختر نے کہا ہے کہ علاقے میں تعینات حفاظتی دستوں نے واقعے کے بعد صبر و تحمل سے کام لیا۔
انہوں نے کہا کہ ان پر "جس نے بھی حملہ کیا وہ ترال کا دوست ہوسکتا ہے نہ کشمیر کا اور نہ ہی اسلام کا۔"
واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز کے دستوں نے ترال کے ایک وسیع علاقے کو گھیرے میں لے کر حملہ آوروں کی تلاش شروع کردی ہے۔
نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم عسکری تنظیموں میں سے کسی نے بھی تاحال دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
لیکن کشمیر میں سرگرم سب سے بڑی عسکری تنظیم حزب المجاہدین نے جسے حال ہی میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہے، نے الزام لگایا ہے کہ مصروف شہری علاقے میں دستی بم کے حملے میں بھارتی خفیہ ایجنسیاں خود ملوث ہیں۔
دریں اثنا بھارتی فوج، مقامی پولیس کے عسکریت مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ اور 'سی آر پی ایف' نے وادیٔ کشمیر کو ریاست کے جموں خطے سے علیحدہ کرنے والے سلسلۂ کوہ 'پیر پنجال' کے علاقے بانہال میں وسیع پیمانے پر آپریشن شروع کردیا ہے۔
حکام کے مطابق اُنہیں بانہال کے تین ایسے نوجوانوں کی تلاش ہے جن پر بدھ کی شام بھارتی فوجی دستوں پر کیے گئے حملے میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔
اس حملے میں بھارت کے نیم فوجی دستے 'سشسترہ سیما بل' (ایس ایس بی) کا ایک سپاہی ہلاک اور ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر زخمی ہوگئے تھے۔
حکام کے مطابق حملہ آور نیم فوجی دستے کے اہلکاروں سے دو بندوقیں چھیننے میں بھی کامیاب ہوگئے۔
حکام کا کہنا ہے کہ بانہال کے دو دیہات کے تین نوجوان بدھ کی سہ پہر سے لاپتا ہیں اور ان میں سے ایک کے زیرِ استعمال موبائل فون ایک تھیلے میں ملا ہے جو جائے واردات سے نصف کلومیٹر کے فاصلے پر سڑک پر پڑا تھا۔
'ایس ایس بی' دستے پر حملہ اُس وقت کیا گیا جب دستے کے اہلکار پیر پنجال پہاڑی سے گزرنے والی 'جواہر ٹنل' پر ڈیوٹی دینے کے بعد اپنے ٹھکانے کی طرف لوٹ رپے تھے۔
تقریباً تین ہزار میٹر لمبی انتہائی اہم 'جواہر ٹنل' سرینگر جموں شاہراہ کا حصہ ہے۔