بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس کے ایک مرکز پر مبینہ علیحدگی پسندوں کے حملے میں آٹھ اہلکاروں سمیت کم از کم 10 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
حکام کے مطابق مسلمان عسکریت پسندوں نے ہفتے کو علی الصباح دارالحکومت سرینگر سے 32 کلومیٹر جنوب میں واقع پلوامہ کے علاقے میں کشمیر پولیس کے ایک اہم مرکز پر اچانک حملہ کیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ جدید اسلحے سے لیس تین سے چار عسکریت پسندوں کے ابتدائی حملے اور بعد میں طرفین کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں آٹھ پولیس اہلکار ہلاک اور نصف درجن زخمی ہوگئے۔
حملے میں دو عسکریت پسند بھی مارے گئے ہیں۔
کشمیر کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) منیر احمد خان نے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کی شناخت کی جارہی ہے لیکن لگتا ہے کہ وہ پاکستانی شہری ہیں۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم کالعدم عسکریت پسند تنظیم جیشِ محمد نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
ایک شخص نے کشمیر کی ایک مقامی خبر رساں ایجنسی کو فون کرکے بتایا ہے کہ وہ جیشِ محمد کا ترجمان حسن شاہ ہے اور اس بات کی تصدیق کرنا چاہتا ہے کہ پلوامہ میں ڈسٹرکٹ پولیس لائنز میں واقع بھارت کی وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کے کیمپ پر ہونے والے حملے میں اس کی تنظیم ملوث تھی۔
ترجمان کے الفاظ تھے کہ "ہمارے دلیر مجاہدین نے بھارتی مسلح افواج کو شدید جانی نقصان پہنچایا ہے اور وہ برابر انہیں ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔"
آئی جی پی منیر احمد خان نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ڈسٹرکٹ پولیس لائنز کی اُس عمارت سے جہاں اُن کے بقول دہشت گردوں نے مورچہ سنبھال رکھا ہے پھنسے ہوئے پولیس اہلکاروں اور دوسرے عملے کو بحفاظت باہر نکالا جاچکا ہے اور اب دہشت گردوں کا کام تمام کرنے لیے آپریشن فیصلہ کُن مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔
سرینگر میں پولیس کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں اس اطلاع کی تردید کی گئی ہے کہ پولیس ٹھکانے کے اندر موجود پولیس والوں یا اُن کے اہلِ خانہ کو عسکریت پسندوں نے یرغمال بنالیا ہے۔
لیکن نئی دہلی میں بھارت کے ہوم سیکریٹری راجیو مہارشی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ دو اسپیشل پولیس افسر عمارت میں پھنس گئے ہیں اوریہ کہنا مشکل ہے کہ وہ محفوظ ہیں یا نہیں لیکن ان کی زندگیاں یقینی طور پر خطرے میں ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں نے مقامی وقت کے مطابق صبح 3:40 پر پولیس مرکز کے اندر داخل ہونے کے بعد اندھا دھند گولیاں چلائیں اور دستی بم پھینکے جس کےبعد وہ دو عمارتوں پر قابض ہوگئے۔
واقعے کے فوراً بعد پولیس اور فوج کے دستوں نے حملہ آوروں کے خلاف آپریشن شروع کردیا۔
پولیس نے صحافیوں کو حملے کا نشانہ بننے والی پولیس لائنز سے نصف کلومیٹر کے فاصلے پر روک لیا تھا جہاں سے پولیس مرکز کے اندر گولیوں کے تبادلے اور زور دار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں اور پھر دھویں اور آگ کے شعلے آسمان کی طرف بلند ہوتے دیکھے گئے۔
آئی جی پی منیر احمد خان نے کہا ہے کہ فائرنگ کے دوران عمارت میں موجود کھانا پکانے والی گیس کا ایک سیلنڈر پھٹ گیا تھا جس کے نتیجے میں ایک عمارت کے اندر آگ لگ گئی۔
جہاں حملہ کیا گیا وہ دو مربع کلومیٹر پر محیط ایک بڑا پولیس اڈہ ہے جس کے گرد 11 فٹ اونچی دیوار موجود ہے۔
اڈے کے اندر کشمیر پولیس کے عسکریت مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ کے علاوہ 'سی آر پی ایف' کی 182 اور 183 بٹالین کے کیمپ موجود ہیں۔
حملے کا نشانہ بننے والے پولیس اڈے کے قریب ہی بھارتی فوج کی 55 راشٹریہ رائفلز کا کیمپ بھی ہے۔
یہ پورا علاقہ ہائی سکیورٹی زون ہے جہاں تک جانے والے تمام راستوں پر 24 گھنٹے پہرہ رہتا ہے۔
ان حالات میں خود بھارتی حکام حیرت میں ہیں کہ عسکریت پسند وہاں تک پہنچنے اور پھر اڈے کے اندر داخل ہونے میں کیسے کامیاب ہوئے؟
پولیس لائنز پر حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں اور بھارتی سکیورٹی دستوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ کے دوران پلوامہ شہر میں نوجوانوں کی ٹولیاں بھارت سے آزادی کے مطالبے کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر آگئیں۔
نوجوانوں اور سکیورٹی دستوں کے درمیان کئی مقامات پر جھڑپیں بھی ہوئی ہیں جن میں پولیس نے پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی۔