امریکی حکام نے ایسے الیکٹرونک ڈیٹا کا پتا لگایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک بینک اکاؤنٹ سے طالبان سے منسلک ایک اکاؤنٹ میں بھاری رقوم منتقل کی گئی ہیں۔
یہ ان شواہد میں شامل ہے جن سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ روس نے افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوجیوں کو قتل کرنے کے عوض طالبان کو خفیہ طور پر انعام کی پیشکش کی تھی۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اسے یہ بات اس خفیہ معلومات سے واقف تین اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی ہے۔
اگرچہ امریکہ پہلے بھی روس پر طالبان کی مدد کا الزام لگاتا رہا ہے لیکن اس بار تجزیہ کاروں نے خفیہ ذرائع کی معلومات سے نتیجہ اخذ کیا کہ منتقل کی گئی رقوم انعامی پروگرام کا حصہ تھیں۔ گرفتار کیے گئے افراد نے تفتیش میں اس پروگرام کے بارے میں بیان کیا تھا۔
اہلکاروں کا کہنا ہے کہ تحقیقات کرنے والوں نے متعدد افغان باشندوں کو شناخت کیا ہے جو مشتبہ روسی کارروائی سے منسلک نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ رقوم تقسیم کرنے والے ایک شخص کے بارے میں خیال ہے کہ وہ اب روس میں ہے۔
افغان حکام نے اس ہفتے کئی واقعات کا ذکر کیا ہے جو اس خفیہ معلومات کا تسلسل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی ایسے کاروباری افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جنھوں نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران رقوم کی منتقلی کے غیر رسمی طریقے حوالہ کو استعمال کیا۔ شبہ ہے کہ وہ روسی خفیہ ایجنسی جی آر یو اور طالبان سے منسلک عسکریت پسندوں کے درمیان رابطے کے نیٹ ورک میں شامل تھے۔
ان کاروباری افراد کو دارالحکومت کابل اور شمالی افغانستان میں کئی چھاپوں میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ایک شخص کے گھر سے 5 لاکھ ڈالر نقد برآمد ہوئے تھے۔
وائٹ ہاؤس، نیشنل سکیورٹی کونسل کے حکام اور ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس جان ریٹکلف کے دفتر نے اس بارے میں تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ انھوں نے گزشتہ پیر کو جان ریٹکلف، قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ سی او برائن اور پینٹاگون کے ترجمان جوناتھن ہوفمین کے بیانات کی طرف اشارہ کیا۔ ان تمام افراد کا کہنا تھا کہ افغانستان سے متعلق حالیہ خبریں مستند نہیں ہیں۔
پیر کو وائٹ ہاؤس نے ایوان نمائندگان کے کئی ری پبلکنز کو خفیہ معلومات پر گفتگو کے لیے مدعو کیا تھا۔ اس میں روس کے قتل کے بدلے انعام سے متعلق پروگرام کی معلومات کے قابل بھروسہ ہونے یا نہ ہونے پر بات کی گئی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ افغان حکام نے گرفتار شدگان سے حاصل شدہ معلومات کو غیر اہم قرار دیا ہے۔ لیکن اس بریفنگ میں رقوم کی منتقلی کی معلومات سے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا۔
منگل کو بھی ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس کو وائٹ ہاؤس میں الگ الگ بریفنگ دی گئی۔ اس کے بعد ڈیموکریٹس کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ واضح طور پر ویسا نہیں جیسا صدر ٹرمپ اسے افواہ قرار دے کر بیان کررہے ہیں۔
ایوان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین ایڈم شف نے کہا کہ مجھے یہ بات عجیب لگ رہی ہے کہ صدر نے ملک کے سامنے آکر امریکی عوام کو یقین نہیں دلایا کہ وہ روس کی جانب سے امریکی فوجیوں کے قتل پر انعام دینے کے معاملے کی تہہ تک پہنچیں گے اور اپنے فوجیوں کے تحفظ کے لیے ہرممکن اقدامات کریں گے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھیں اس بارے میں معلومات فراہم نہیں کی گئی تھی۔ انھوں نے خفیہ تجزیے کو نام نہاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں بتایا گیا کہ یہ قابل بھروسہ نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس نے بھی ایسے بیانات جاری کیے جن میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کو اس بارے میں بریف نہیں کیا گیا تھا۔
لیکن دو اہلکاروں کے مطابق روس کے خفیہ منصوبے کی معلومات فروری کے آخر میں صدر ٹرمپ کی روزانہ کی بریفنگ میں شامل تھی۔ یہی معلومات 4 مئی کو سی آئی اے کے ورلڈ انٹیلی جنس ریویو کے ایک مضمون میں کافی ٹھوس کہہ کر انٹیلی جنس کمیونٹی میں تقسیم کی گئی۔
طالبان کے ایک ترجمان نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس نے امریکی اور اتحادی فوجیوں پر حملے کے لیے روس کی رقوم قبول کیں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ طالبان کو اپنی کارروائیاں کرنے کے لیے اس طرح کی ترغیبات کی ضرورت نہیں۔ لیکن ایک امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ توجہ کا مرکز وہ جرائم پیشہ عناصر ہیں جو طالبان سے منسلک ہیں اور پیسے لے کر حملے کرتے ہیں۔