غزہ سے ایک اسرائیلی یرغمال کی باقیات ملنے کا دعویٰ

اسرائیل میں یرغمالوں کی رہائی کے لیے کام کرنے والے فورم نے 53 سالہ یوسف الزیاد نی کی تصویر فراہم کی ہے۔ بدوی کمیونٹی کے اس اسرائیلی فلسطینی کو 7 اکتوبر 2023 میں عسکریت پسندوں نے اس کے تین بچوں سیت اغوا کر لیا تھا۔

  • اسرائیی فوجیوں کو غزہ کی ایک سرنگ سے کچھ انسانی باقیات ملی ہیں جن میں سے ایک کی شناخت ایک یرغمالی یوسف الزیادنی کے طور پر ہوئی ہے۔
  • ایک اور شخص کی باقیات کے متعلق فوج نے کہا ہے کہ وہ یوسف کے بیٹے حمزہ کی ہو سکتی ہیں تاہم ابھی تصدیق ہونا باقی ہے۔
  • یوسف الزیادنی کا تعلق اسرائیل کی پس ماندہ اور غریب بدوی کمیونٹی سے تھا۔
  • 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے عسکریت پسندوں نے جن 250 افراد کو یرغمال بنایا تھا ان میں بدوی کمیونٹی کے 8 لوگ بھی شامل تھے۔
  • ان آٹھ افراد میں یوسف کے تین بچے بھی شامل تھے جن میں سے ایک نوعمر بیٹے اور بیٹی کو نومر2023 کی عارضی جنگ بندی میں 100 یرغمالوں کے ہمراہ آزاد کر دیا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج نے بدھ کہا ہے کہ اس کے فوجیوں کو جنوبی غزہ میں ایک زیرزمین سرنگ سے دو یرغمالوں کی باقیات ملی ہیں جن میں سے ایک 53 سالہ یوسف الزیادنی ہیں جب کہ دوسری باقیات کے بارے میں یہ تعین کیا جا رہا ہے کہ آیا وہ اس کے بیٹے حمزہ کی ہیں۔

یوسف الزیادنی کی باقیات ایک ایسے وقت میں دریافت ہوئیں جب اسرائیل اور حماس جنگ بندی کے ایک معاہدے پر غور کر رہے ہیں جس سے غزہ میں موجود بقیہ یرغمالوں کو رہائی مل جائے گی اور جنگ روک دی جائے گی۔

باور کیا جاتا ہے کہ حماس کے پاس 100 کے لگ بھگ یرغمال موجود تھے جن میں سے اسرائیلی ایجنسیوں کے خیال میں ایک تہائی ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیکن اب ان کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے یرغمالوں کی تعداد نصف ہو سکتی ہے۔

بدھ کے اس اعلان سے قبل یوسف اور ان کے بیٹے حمزہ الزیادنی کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ زندہ ہیں۔ اب یوسف کی ہلاکت کی خبر آنے کے بعد اسرائیل پر اس دباؤ میں اضافہ ہو گا کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے تیزی سے کام کرے۔

SEE ALSO: میرے صدارت سنبھالنے سے پہلے حماس نے یرغمال رہا نہ کیے تو قیامت برپا ہو جائے گی: ٹرمپ

اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ انہیں سرنگ میں ایسے شواہد ملے ہیں جن سے 23 سالہ جمزہ الزیادنی کے زندہ ہونے کے متعلق خدشات پیدا ہو گئے ہیں اور ممکن ہے کہ وہ بھی حماس کی اسیری کے دوران ہلاک ہو گیا ہو۔

یوسف الزیادنی کو ان کے تین بچوں کے ساتھ اکتوبر 2023 میں اس وقت یرغمال بنایا گیا تھا جب حماس کے عسکریت پسندوں نے جنوبی اسرائیل پر ایک بڑے اور اچانک حملے میں 1200 افراد کو ہلاک اور 250 کو پکڑ لیا تھا۔ اور جس کے نتیجے میں اسرائیل کی جوابی کارروائی سے غزہ میں جنگ شروع ہوئی۔

یوسف الزیادنی جنوبی اسرائیل کے علاقے کیبوتس ہولت کے ایک ڈیری فارم میں 17 سال سے کام کر رہے تھے۔ ان کے 19 بچے تھے۔ یرغمالوں کے خاندانوں پر مشتمل ان کی رہائی کی کوششیں کرنے والے فورم نے بتایا ہے کہ یوسف الزیادنی کے ساتھ ان کے تین بچوں کو بھی عسکریت پسند پکڑ کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے۔

SEE ALSO: اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کا امکان؛ حماس کا 34 یرغمالی رہا کرنے کا عندیہ

نومبر 2023 میں ایک مختصر دورانیے کی عارضی جنگ بندی میں حماس نے تقریباً 100 یرغمال رہا کر دیے تھے جن میں یوسف کے دو نوعمر بچے بلال اور عائشہ بھی شامل تھے۔ تاہم انہوں نے یوسف کے بڑے بیٹے 23 سالہ حمزہ کو رہا نہیں کیا تھا۔

یوسف کے خاندان کا تعلق بدوی کمیونٹی سے ہے جو اسرائیل کی فلسطینی اقلیت کا ایک حصہ ہے۔ یہ اسرائیلی شہریت رکھنے والی ایک غریب اور پس ماندہ کمیونٹی ہے۔ اسرائیل کی تقریباً ایک کروڑ آبادی میں سے اس کمیونٹی کا حصہ 20 فی صد کے قریب ہے۔

اکتوبر 2023 کے حملے میں حماس نے بدوی کمیونٹی کے 8 افراد کو بھی اغوا کیا تھا۔

SEE ALSO: غزہ میں اسیر یرغمالوں کی رہائی کےمذاکرات ، کچھ پیش رفت ہوئی ہے، نیتن یاہو

یوسف الزیادنی کا نام ان 34 یرغمالوں کی فہرست میں شامل تھا، جس کے بارے میں حماس نے گزشتہ سال جولائی میں ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کے مذاکرت میں کہا تھا کہ انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ لیکن وہ معاہدہ طے نہیں پا سکا تھا۔

اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنے ایک بیان میں یوسف الزیادنی کی ہلاکت کی خبر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کمیونٹی کے بقیہ چار افراد کی رہائی اور واپسی کے لیے کام جاری ہے۔

اس سے قبل اسرائیل کے وزیر دفاع نے کہا تھا کہ یوسف اور حمزہ کی باقیات بازیاب کر لی گئی ہیں۔ جب کہ فوج نے کہا تھا کہ کچھ باقیات کی شناخت کی تصدیق ابھی باقی ہے۔

SEE ALSO: غزہ: حماس کی تحویل میں موجود امریکی اسرائیلی یرغمالی کی ویڈیو جاری

غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ اب اپنے 16 ویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے جس میں غمزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 45800 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے۔ جب کہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ہزاروں جنگجو بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔

جنگ کے نتیجے میں غزہ کا زیادہ تر حصہ تباہ ہو چکا ہے اور آبادی کا ایک بڑا حصہ بے بے گھروں کی زندگی گزار رہا ہے۔ علاقے میں پانی، خوراک، ادویات اور ایندھن کی شدید قلت ہے۔

(اس رپورٹ کی کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)