|
پشاور — چین کو اس وقت ایسی صورتِ حال کا سامنا ہے جس میں ان کی پیداواری صلاحیت مصنوعات کی طلب سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ غیر ملکی خریدار کم ہونے کی وجہ سے الیکٹرک گاڑیاں، کچن کا سامان، برتن، ملبوسات اور مختلف مصنوعات تیار کرنے والے صنعتی شعبے نے اب ترقی پذیر ممالک کی منڈیوں کی طرف اپنی توجہ کر لی ہے۔
چین کی معاشی سست روی کے باعث مقامی طلب میں شدید کمی آئی ہے اور مغرب کے ساتھ چین کے بڑھتے تجارتی تنازعات نے امریکہ اور یورپی یونین کو چین پر ٹیرفس کا ازسرِ نو جائزہ لینے پر مجبور کیا ہے۔
اندرونی اور بیرونی پریشانیوں کے پیشِ نظر چینی مینوفیکچررز اپنے اضافی ساز و سامان کو ٹھکانے لگانے کے لیے تیزی سے ترقی پذیر ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے دنیا کی مختلف مارکیٹوں میں سستی چینی اشیا کی ریل پیل دیکھنے میں آئی ہے۔
بلومبرگ کے تخمینوں کے مطابق اگر یہ رجحان موجودہ رفتار کے ساتھ بڑھتا رہا تو چین کا غیر ملکی تجارتی سرپلس اس سال ایک ٹریلین (10 کھرب) ڈالر کی نئی بلند سطح پر پہنچ جائے گا۔
گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق اس سال کے پہلے 10 ماہ میں چین کی تجارت کا سر پلس 785 ارب ڈالر تک بڑھ گیا تھا جو 2023 کے مقابلے میں تقریباً 16 فی صد زیادہ ہے۔
چین کے ہمسایہ ملک پاکستان میں بھی یہ رجحان اسی طرح نظر آ رہا ہے۔ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بازار سستے چینی سامان سے بھرے ہوئے ہیں۔
سندھ اور پنجاب میں آپ دکانوں کے پاس سے گزریں تو آپ کو چین کی مختلف اشیا نظر آئیں گی۔ دکانوں اور اسٹورز کے ساتھ ساتھ آن لائن اسٹورز بھی صارفین کو چینی مصنوعات بیچنے کی سر توڑ کو ششیں کر رہے ہیں۔
مصنوعات کی فروخت کے لیے حیران کن رعایت دی جا رہی ہے۔ مفت شپنگ کی سہولت اور دیر سے ڈیلوری کی صورت میں مراعات کی پیش کش بھی کی جا رہی ہے۔
پاکستانی ای کامرس پلیٹ فارم 'دراز' خصوصی طور پر چینی اشیا فروخت کر رہا ہے اور اس کی پُر کشش قیمتیں اور پروموشنز اور بھی حیران کن ہیں۔
یہی ٹرینڈ دیگر ای کامرس چینلز پر بھی دیکھا گیا ہے۔ چینی اشیا کے سستے داموں دستیابی کے لیے آن لائن اشتہارات میں بھی اضافہ ہوا ہے خاص طور پر فیس بک، دراز، شاپ ہائیو، ٹیلی مارٹ اور ہوم شاپنگ جیسے پلیٹ فارمز نے چینی مصنوعات تک صارفین کی رسائی کو مزید وسعت دی ہے۔
اس ٹرینڈ کی ایک مثال پاکستانی مارکیٹس میں الیکٹرک گاڑیوں، ٹرائی سائیکلوں اور سائیکلوں کی ہر جگہ موجودگی ہے۔ ان چینی گاڑیوں کی قیمتیں بہت کم ہیں۔
کراچی کی مارکیٹ میں ایک الیکٹرک ٹرائی سائیکل کی مالیت 1500 ڈالر (چار لاکھ 15 ہزار سے زائد) ہے جب کہ ای بائیک کی قیمت 649 سے 685 ڈالر (ایک لاکھ 80 سے 90 ہزار روپے) کے درمیان ہے۔
چین کی مشہور ای-کامرس کمپنی علی بابا نے چین میں چار پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں کی فہرست اور ان کی قیمتیں اپ لوڈ کی ہیں۔ چین میں الیکٹرک کار کی قیمت اس کی خصوصیات، ڈیزائن اور فیچرز کے حساب سے 400 سے 80 ہزار ڈالر کے درمیان ہوتی ہیں۔
مقامی صنعت کو شدید نقصان
چینی مصنوعات کی بھرمار سے پاکستان کی مقامی صنعت تیزی سے اپنا مارکیٹ شیئر کھو رہی ہے جس کی وجہ سے پنجاب اور سندھ میں کئی کاروبار بند ہو رہے ہیں اور بڑی تعداد میں ورکرز اور لیبرز کا نقصان ہو رہا ہے۔
اگرچہ چینی اشیا طویل عرصے سے پاکستانی مارکیٹ میں فروخت ہو رہی ہیں۔ لیکن اب ان کی وافر تعداد اور اقسام آ رہی ہیں جس سے پاکستان کے کاروباری منظر نامے میں ایک ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔
پاکستانی صنعتوں کو چینی سامان کی بے قابو آمد و رفت پر تشویش ہے۔ لیکن وہ اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ چین کے مفادات کی خلاف ورزی ان کے لیے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔
اگرچہ وہ چین کے ساتھ تجارتی عدم توازن کی مقامی صنعتوں پر پڑنے والے منفی اثرات کے بارے میں عمومی طور پر خاموش رہتے ہیں۔ لیکن بعض لوگ اس صورتِ حال کو 'ورچوئل ڈمپنگ' قرار دیتے ہیں جس نے پاکستان کی مقامی انڈسٹری کے مستقبل سے متعلق خدشات کو بھی بڑھا دیا ہے۔
مقامی مینوفیکچررز اور خیبر پختونخوا ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کونسل کے سابق رکن محمد اسحاق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چین میں کاروبار کرنے کی لاگت نسبتاً کم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چین میں گیس، بجلی، خام مال اور ٹرانسپورٹیشن جیسے اخراجات کم ہیں۔ اس وجہ سے انہیں اپنا سامان کم قیمت پر برآمد کرنے کے لیے ایک بفر ملتا ہے۔
محمد اسحاق نے بتایا کہ چینی سامان کی مقامی مارکیٹ میں ڈمپنگ نے پاکستانی صنعت کاروں کے لیے بڑی مشکلات پیدا کردی ہیں۔
ان کے بقول "مارکیٹ میں کم قیمت، اعلیٰ کوالٹی والی چینی مصنوعات کی بھرمار ہے جس نے مہنگی اور کم معیار والی پاکستانی مصنوعات کے لیے مارکیٹ میں جگہ کم کردی ہے۔ اس صورتِ حال نے پنجاب اور سندھ میں درجنوں صنعت کاروں کو پلانٹ بند کرنے اور سینکڑوں لوگوں کو روزگار سے محروم کرنے پر مجبور کردیا ہے۔"
اگرچہ پشاور میں مرکزی شاپنگ مالز میں چینی مصنوعات کی بھرمار ہے۔ لیکن اس کے باوجود خریداروں کی تعداد توقعات سے بہت کم ہے۔ صنعت کار خریداروں میں کمی کی وجہ ملک میں شدید غذائی افراطِ زر کو قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول مہنگائی قوتِ خرید کو متاثر کر رہی ہے۔
گارڈن فرنیچر بنانے والے عبدالوحید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان کی معاشی صورتِ حال خراب ہے۔
انہوں نے کہا کہ خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے لوگوں کی قوتِ خرید میں نمایاں کمی کی ہے جس کی وجہ سے اب صارفین صرف ضروری خوراک کو ترجیح دیتے ہیں اور پیسے بچانے کے لیے غیر ضروری خریداری سے گریز کرتے ہیں۔
عبدالوحید کے مطابق وہ چین کا مقابلہ نہیں کرسکتے کیوں کہ اس کے پاس جدید ترین مینوفیکچرنگ ٹیکنالوجی ہے اور ان کی مصنوعات کی تیاری کی لاگت کم ہے۔
سستی چینی مصنوعات
سن 1986 میں قائم ہونے والا پشاور کا مشہور کارخانو بازار افغان سرحد اور تاریخی خیبر پاس سے تقریباً 33 کلو میٹر دور واقع ہے۔ اس مارکیٹ میں 35 بلاکس ہیں جس میں ہر ایک کا منفرد نام ہے جیسے ستارہ مارکیٹ، شاہ مال، یونین اسکوائر وغیرہ۔ جہاں ہر جگہ 100 سے زیادہ دکانیں ہیں۔
کارخانو بازار میں ہارڈویئر، الیکٹرانکس، کچن کا سامان، مٹی کے برتن، گھڑیوں، خشک میوے، ملبوسات اور کپڑوں کی وسیع رینج دستیاب ہے جس میں سے زیادہ تر سامان چین کا بنا ہوا ہوتا ہے۔
یہ مارکیٹ افغانستان سے اسمگل ہونے والے ساز و سامان کی فروخت کے لیے مشہور ہے۔ یہاں سامان پاکستان افغانستان سرحد کے قریب ناہموار پہاڑی علاقوں سے مارکیٹ تک پہنچایا جاتا ہے۔
SEE ALSO: 'فوجی فوڈز' کے ذریعے چین کو دُودھ کی برآمد کا منصوبہ کیا ہے؟کارخانو بازار ٹریڈ ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ملک ندیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق مارکیٹ کی مالیت ایک ارب ڈالر سے زائد ہے اور یہاں 35 بلاکس میں 3500 سے زیادہ اسٹورز ہیں۔
ان کے خیال میں افغانستان-پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ (اے پی ٹی ٹی اے) کارخانو بازار کی تیزی سے ترقی کا بنیادی محرک ہے۔
یہ معاہدہ پاکستان کے راستے افغانستان کے ٹرانسپورٹ سسٹم میں درآمدی سامان کی آمد و رفت میں سہولت فراہم کرتا ہے۔ یہ معاہدہ 2010 میں ہوا تھا اور 2021 میں اس کی میعاد ختم ہوگئی تھی۔ پاکستان نے اس معاہدے کی تجدید نہیں کی تھی کیوں کہ اس کا دعویٰ ہے کہ افغانستان نے اس سہولت کا غلط استعمال کیا ہے۔
ملک ندیم اس معاہدے کی میعاد ختم ہونے کے بعد ٹیکس محصولات میں اضافے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اب انہیں چین اور دبئی سے مال درآمد کرنا پڑتا ہے جس کی مالیت میں 60 فی صد تو صرف ڈیوٹیز اور ٹیکس کی مد میں ادا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ چینی اشیا کا ذخیرہ اور سپلائی اچھی ہے لیکن خریدار کم ہو رہے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ خریداروں میں 30 سے 40 فی صد کمی آئی ہے۔ تاہم حال ہی میں چینی اشیا کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ قیمتوں میں نمایاں کمی ہے۔
یہ خبر وی او اے کی 'میندرین سروس' سے لی گئی ہے۔