یورپی ملک آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں پیر کی شب چھ مختلف مقامات پر فائرنگ کے واقعات میں چار افراد ہلاک اور کم از کم 15 زخمی ہو گئے ہیں۔
ویانا پولیس چیف نے منگل کو نیوز بریفنگ کے دوران بتایا کہ دہشت گردوں کے حملے میں ایک خاتون اور دو مرد ہلاک ہوئے ہیں۔ جبکہ بعد ازاں سرکاری ٹی وی پر ایک اور خاتون کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی گئی۔
پولیس چیف کے بقول پولیس نے جس حملہ آور کو نشانہ بنایا ہے وہ وزیرِ داخلہ کے مطابق شدت پسند تنظیم 'داعش' کا حامی تھا۔
تاہم پولیس چیف نے ہلاک شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی۔
آسٹریا کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'اے پی اے' کے مطابق زخمیوں میں سے سات کی حالت تشویش ناک ہے۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق حملے کے بعد سرحدوں پر تلاشی سخت کر دی گئی ہے اور منگل کو اسکول بند رہیں گے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اُن کی دعائیں ویانا کے لوگوں کے ساتھ ہیں۔ معصوم لوگوں کے خلاف یہ حملے ہر صورت رکنے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں آسٹریا، فرانس اور پورے یورپ کے ساتھ کھڑا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے بھی واقع کی شدید مذمت کرتے ہوئے آسٹریا کی حکومت اور عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق حملے کے بعد لوگوں نے بارز اور ہوٹلوں میں پناہ لی اور مرکزی شہر میں ٹرانسپورٹ کو فوری طور پر بند کر دیا گیا۔
فائرنگ کے واقعے کے بعد پولیس نے شہر کے مختلف علاقوں کا محاصرہ کرنے کے بعد شہریوں کو گھروں میں ہی رہنے کی ہدایت کی ہے۔
آسٹریا کے وزیرِ داخلہ کارل نیہمر نے ویانا میں فائرنگ کے واقعے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آسٹریا کے لیے ایک بُرا دن ہے۔
وزیرِ داخلہ کے مطابق ایک حملہ آور مارا جا چکا ہے جب کہ دوسرا مفرور ہے جس کی تلاش جاری ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کی طرف سے لوگوں کو خود کار ہتھیاروں کے ذریعے اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ کرونا وائرس کے سبب کرفیو کے نفاذ سے قبل بارز میں موجود تھے۔
آسٹریا، یورپ کے کئی ممالک میں حالیہ برسوں میں ہونے والے دہشت گرد حملوں سے اب تک محفوظ تھا۔
ویانا میں یہودی برادری، جس کے دفاتر حملے کے مقام سے قریب ہی واقع تھے، کے سربراہ آسکر ڈوئچ کا ایک ٹوئٹ میں کہنا ہے کہ اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ حملہ آوروں کا ہدف اُن کی عبادت گاہ اور دفاتر تھے یا نہیں۔ تاہم حملے کے وقت مسلح افراد اِن مقامات کے قریب تھے۔
عبادت گاہ کے کمپاؤنڈ میں رہائش پذیر ربی سلوومو ہوفمیسٹر نے لندن کے ایل بی سی ریڈیو کو بتایا کہ فائرنگ کی آواز سن کر جب انہوں نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو حملہ آور بارز میں آئے ہوئے لوگوں پر گولیاں برسا رہے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حملہ آور ادھر ادھر بھاگ رہے تھے اور انہوں نے ان کی عمارت کے سامنے کم از کم 100 یا اس سے بھی زیادہ گولیوں کے راؤنڈ فائر کیے۔
ویانا کے میئر مائیکل لڈ وِگ کا کہنا ہے کہ منگل سے معمولات زندگی معمول پر آجائیں گے جب کہ شہر میں پولیس کی بھاری نفری موجود رہے گی۔
واضح رہے کہ رواں ماہ جمعرات کو فرانس کے شہر نیس میں چاقو کے حملے میں تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے قبل پیرس میں ایک تاریخ کے اُستاد سیموئیل پیٹی کی جانب سے کلاس میں پیغمبرِ اسلام کے خاکے دکھانے پر بعدازاں ایک شخص نے اُن کا سر قلم کر دیا تھا۔
SEE ALSO: 'مسلمانوں کے جذبات کا احترام ہے لیکن تشدد برداشت نہیں کریں گے'فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں نے جاری کردہ بیان میں ویانا میں ہونے والے واقع پر صدمے اور دکھ کا اظہار کیا ہے۔
میخواں کا کہنا ہے کہ یہ اُن کا یورپ ہے اور ان کے دشمنوں کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ ان کا واسطہ کس سے پڑا ہے۔ وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں ویانا میں ہونے والے واقع پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں۔
یورپین کونسل کے صدر چارلز مائیکل کا بھی ایک ٹوئٹ میں کہنا ہے کہ یورپ اس بزدلانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہے۔