افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند میں طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز میں جاری شدید لڑائی کے باعث ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فریقین سے شہریوں کے انخلا کے لیے محفوظ راستہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
طالبان نے صوبہ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ پر کنٹرول کے لیے رواں ہفتے بڑی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ افغان فورسز اور طالبان میں گزشتہ کئی دن سے لڑائی جاری ہے۔ اس لڑائی میں افغان فورسز کو امریکہ کی فضائی مدد بھی حاصل ہے۔
اقوامِ متحدہ کے اندازوں کے مطابق لشکر گاہ اور قریبی علاقوں سے لگ بھگ پانچ ہزار خاندان نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ان خاندانوں کے 35 ہزار سے زائد افراد مختلف علاقوں میں جا چکے ہیں جب کہ مزید افراد بھی نقل مکانی کر رہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا کے سربراہ عمر وڑائچ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ لشکر گاہ کے حالات عام شہریوں کے لیے انتہائی خراب ہو چکے ہیں جب کہ آنے والے دنوں میں ان کا مزید تیزی سے خراب تر ہونے کا اندیشہ ہے۔
Civilians must be allowed safe passage out of Lashkar Gah following three days of intense fighting between Afghan government and Taliban forces said Amnesty International. https://t.co/wczYuE9GJS
— Amnesty International South Asia (@amnestysasia) October 15, 2020
ان کا کہنا تھا کہ بدترین لڑائی میں ہزاروں افراد پھنس چکے ہیں جب کہ فریقین میں جاری لڑائی کی شدت میں کمی کے آثار نظر نہیں آ رہے۔
اقوام متحدہ کے افغانستان کے لیے معاونت کے مشن (یوناما) نے فریقین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر تشدد کو روک دیں اور افغانستان کے تنازع کے حل کے لیے پر امن مذاکرات کی راہ اختیار کی جائے۔
یوناما کا کہنا ہے کہ ہلمند میں رواں ہفتے تشدد کے باعث ہزاروں افغان اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
The violence unleashed in #Helmand this week has forced thousands of #Afghanistan civilians to leave their homes and initial reports suggest civilians have been killed & injured, including women & children. 1/5
— UNAMA News (@UNAMAnews) October 15, 2020
یوناما کے مطابق ابتدائی رپورٹس سے واضح ہو رہا ہے کہ لڑائی میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق ہلمند کے شعبہ مہاجرین کے ڈائریکٹر سید محمد رامین کا کہنا ہے کہ پانچ ہزار سے زائد خاندان لڑائی کے باعث متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا مزید کہنا تھا کہ کئی افراد اب بھی لشکر گاہ میں مختلف مقامات پر آسمان تلے موجود ہیں۔ تاہم مہاجرین کے شعبے کے پاس مزید ٹینٹ موجود نہیں ہیں جو ان افراد کو مہیا کیے جا سکیں۔
انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ ہلمند سے نقل مکانی کرنے والے 35 ہزار سے زائد افراد کن علاقوں میں گئے ہیں اور ان کے رہنے کا کیا بندوبست کیا گیا ہے۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ بدھ کو ہلمند کے چار اضلاع میں لڑائی جاری رہی۔ سیکیورٹی فورسز مسلسل طالبان کے حملوں کا مؤثر جواب دے رہی ہیں۔
واضح رہے کہ بدھ کو سیکیورٹی فورسز کے دو ہیلی کاپٹرز بھی ٹکرانے سے تباہ ہو گئے تھے۔ اس واقعے میں دونوں ہیلی کاپٹرز پر سوار نو اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ حکام کا کہنا تھا کہ ان ہیلی کاپٹرز میں زخمیوں کو لڑائی سے متاثر علاقوں سے منتقل کیا جا رہا تھا۔
وزارتِ دفاع اس واقعے کی تحقیقات کا اعلان کر چکی ہے۔
خیال رہے کہ ہلمند کو طالبان کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ اس صوبے میں گزشتہ 19 سال میں نیٹو افواج اور طالبان کے مابین بھی جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
رواں برس فروری میں امریکہ اور طالبان میں امن معاہدہ ہونے کے بعد خیال کیا جا رہا تھا کہ طالبان شہری علاقوں کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ جب کہ اب تشدد میں بھی کمی لائی جائے گی۔
دوسری جانب امریکہ یہ اعادہ کر چکا ہے کہ آئندہ برس مئی تک افغانستان سے فوجی انخلا مکمل کر لے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایک ہفتہ قبل امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ رواں برس کرسمس تک امریکہ کی تمام فوج افغانستان سے واپس اپنے ملک آ جانی چاہیے۔
صدر ٹرمپ نے ایک مختصر ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ہمیں افغانستان میں کم تعداد میں خدمات انجام دینے والے بہادر فوجیوں کو کرسمس تک واپس اپنے گھر بلا لینا چاہیے۔
We should have the small remaining number of our BRAVE Men and Women serving in Afghanistan home by Christmas!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) October 7, 2020
صدر ٹرمپ کی اس ٹوئٹ سے یہ واضح نہیں تھا کہ وہ یہ حکم دے رہے تھے یا خواہش کا اظہار کر رہے تھے۔
صدر ٹرمپ کی یہ ٹوئٹ ایسے موقع پر سامنے آئی تھی جب امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر نے چند گھنٹے قبل ہی کہا تھا کہ امریکہ آئندہ برس کے اوائل تک افغانستان میں اپنی فوجیوں کی تعداد 2500 تک گھٹا دے گا۔ امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن نے لاس ویگاس میں تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ افغانستان میں امریکہ کے پانچ ہزار سے کم فوجی تعینات ہیں جنہیں اگلے برس کے اوائل میں گھٹا کر 2500 سے کم کر دیا جائے گا۔
دریں اثنا افغان وزیرِ دفاع نے صدر ٹرمپ کے بیان کا حوالہ دیے بغیر کہا تھا کہ افغان سرزمین پر چھ ماہ کے دوران ہونے والی تمام فوجی کارروائیاں افغان افواج نے کی ہیں۔
افغان فوج کے سربراہ جنرل یاسین ضیا نے بھی کہا تھا کہ افغانستان کی مسلح افواج ملک سے دشمنوں کو ختم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
یاد رہے کہ رواں برس فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تھا جس میں طالبان کے دہشت گردی کی روک تھام کی یقین دہانیوں کے بدلے امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج مئی 2021 تک واپس بلانے کا کہا تھا۔
طالبان نے اس کے بدلے مستقل جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ شراکتِ اقتدار کا فارمولا طے کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان گزشتہ ماہ مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ البتہ ان مذاکرات میں کسی بھی قسم کی پیش رفت کی رپورٹ سامنے نہیں آ سکی ہے۔