افغانستان سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں حالیہ چند ماہ کے دوران ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافے کے خلاف قبائلیوں نے احتجاج کیا ہے۔
ایجنسی دوسرے بڑے قصبے میر علی میں پیر کو سیکڑوں قبائلیوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
مظاہرین کا تعلق شمالی وزیرستان کے مختلف دیہات اور علاقوں سے تھا جو میر علی کے مرکزی چوک میں جمع ہوئے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کی۔
مظاہرے کے باعث میر علی کے راستے شمالی وزیرستان اور بنوں کے درمیان ٹریفک کی آمد و رفت بھی کافی دیر تک معطل رہی۔
احتجاج میں شریک قبائلی رہنما ملک غلام خان داوڑ نے وائس آف آمریکہ کو بتایا ہے کہ شمالی وزیرستان کے لوگوں نے قیامِ امن اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں مگر گزشتہ چند ہفتوں سے تشددکے واقعات بالخصوص ٹارگٹ کلنگ نے ایک بار پھر لوگوں کو پریشان کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ہی دن میں تین افراد کا قتل حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
میر علی تحصیل کے مختلف مقامات پر اتوار کو نامعلوم افراد نے تین افراد کو گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔
ہلاک ہونے والوں میں سابق رکنِ قومی اسمبلی اور ایک مذہبی جماعت کے رہنما مولانا محمد دین دار کا بیٹا بھی شامل ہے۔
چند سال قبل انتقال کرجانے والے مولانا دین دار نے سرحد پار افغانستان میں طالبان تحریک کی حمایت کی تھی مگر کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے بارے میں انہوں نے کوئی واضح نہیں اپنایا تھا۔
شمالی وزیرستان کی تحصیلوں میر علی اور میران شاہ میں اس سے قبل بھی کئی افراد نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں۔
سابق صوبائی وزیر اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مرکزی سیکریٹری جنرل میاں افتخارحسین کا کہنا ہے کہ اگر مرنے والوں کو نامعلوم افراد نے قتل کیا ہے اور وہ بے گناہ تھے تو اس قسم کی پرتشدد کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں میاں افتخار حسین نے کہا کہ حکومت بالخصوص قانون نافذکرنے والے اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ فوری طور پر ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام یقینی بنائیں ورنہ یہ سلسلہ پورے ملک کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ میر علی کے دو مختلف گاؤوں میں چند روز قبل نامعلوم عسکریت پسندوں نے خواتین کے دو اسکولوں کو بھی بارودی مواد سے تباہ کردیا تھا۔ اس دوران اپنے آپ کو مجاہدہن کہلانے والوں نے ہاتھ سے لکھے گئے خطوط کے ذریعے قبائل کو بچوں کو اسکول نہ بھیجنے کی بھی دھمکی دی تھی۔
تشددکے ان حالیہ واقعات کے بارے میں ابھی تک شمالی وزیرستان کی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کسی قسم کا کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستانی فوج کی جانب سے شمالی وزیرستان میں کیے جانے والے آپریشن 'ضربِ عضب' کے دوران ایجنسی میں آباد بیشتر قبائل کو غیر مسلح کردیا گیا تھا جس پر قبائلی رہنما تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔