پاکستان میں انسانی حقوق کے ایک غیرجانبدار ادارے ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں لڑکیوں کے اسکولوں پر ہونے والے دو حالیہ حملوں کی تحقیقات کرے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق لڑکیوں کی اسکولوں کی عمارتوں کو 7 اور 8 مئی کو ہونے والے دو مختلف بم دھماکوں کے باعث نقصان پہنچا۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ مقامی رہائشیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک جنگجو گروہ کی جانب سے پمفلٹ تقسیم کیے گئے ہیں جن میں لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اپنی بالغ بیٹیوں کو اسکول نہ بھیجیں۔
ایچ آر سی پی کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگرچہ مقامی انتظامیہ ان واقعات کی تصدیق پر رضامند دکھائی نہیں دیتی، تاہم ایچ آر سی پی کے ذرائع ظاہر کرتے ہیں کہ شمالی وزیرستان کے رہائشیوں نے علاقے میں جنگجو گروہوں کے دوبارہ ابھرنے سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایچ آر سی پی اس کی شدید مذمت کرتا ہے ”کمیشن کو یہ جان کر دھچکا لگا ہے کہ علاقہ مکینوں کو کھلے عام دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو اسکول نہ بھیجیں۔ یہ ریاست کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ پاکستان کا ہر بچہ اسکول جائے۔ کسی بھی فرد یا گروہ کو انہیں روکنے کا حق حاصل نہیں ہے۔‘‘
”ایسے واقعات فاٹا میں مشکل سے قائم کیے گئے امن میں رکاوٹ کا باعث بنیں گے، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں۔ ایچ آر سی پی حکام پر زور دیتا ہے کہ لوگوں کے جاننے کے حق کے مفاد میں اور ان کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے، صورتحال کی فوری اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں اور ان کے حقائق منظر عام پر لائے جائیں“۔
واضح رہے کہ پاکستانی فوج نے جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں موجود ملکی اور غیر ملکی جنگجوؤں کے خلاف ضرب عضب کے نام سے ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کیا تھا اور فوج کا دعویٰ تھا کہ اس علاقے سمیت قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کے ڈھانچے کو ختم کر دیا گیا ہے۔
لیکن اب بھی بعض علاقوں میں وقتاً فوقتاً دہشت گردوں کی سرگرمیوں کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔
آپریشن ضرب عضب کے بعد شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی اپنے علاقوں کو واپسی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔