امریکہ نے کن معلومات کی بنا پر ملا منصور کو نشانہ بنایا؟

فائل فوٹو

ملا منصور کو بلوچستان کے ایک دوردراز علاقے میں ہلاک کیا گیا جہاں اس سے قبل امریکی ڈرون حملے نہیں کیے گئے۔

افغان سرحد کے قریب پاکستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما ملا اختر منصور کو نشانہ بنائے جانے کے کئی دن گزرنے کے بعد بھی یہ واضح نہیں کہ ملا منصور کی وہاں موجودگی کے بارے میں امریکہ کو کیسے معلوم ہوا۔

ملا منصور کو بلوچستان کے ایک دوردراز علاقے میں ہلاک کیا گیا جہاں اس سے قبل امریکی ڈرون حملے نہیں کیے گئے۔

تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے سے امریکی حمکت عملی میں تبدیلی یا پاکستان کے قبائلی علاقوں کے اندر دس سال سے جاری دہشت گردوں کے خلاف ڈرون مہم کا دائرہ وسیع کرنے کا اشارہ نہیں ملتا۔

مسعود فریوار اور احمد داؤی کی رپورٹ کے مطابق ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر کہا کہ ملا منصور ایسا ہدف تھا جو اچانک سامنے آیا اور اسے نشانہ بنایا گیا۔ ’’اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے۔‘‘

افغانستان میں امریکی فورسز کی 2009 سے 2011 تک قیادت اور بعد ازاں افغانستان میں امریکی سفیر کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے کارل ایکنبیری نے کہا کہ ملا منصور کے مقام کے بارے میں معلومات ایک غیر معمولی پیش رفت تھی جسے امریکہ ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتا تھا۔

’’ایسی شخصیات کے بارے میں انٹیلی جنس ملنا آسان کام نہیں۔ اس سے پہلے اگر ہمارے پاس ایسی معلومات ہوتیں تو میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ہم حملہ نہ کرنے کا فیصلہ کرتے۔‘‘

ملا منصور پر حملہ 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن پر کیے گئے حملے کے بعد دوسرا اہم واقعہ تھا اور صوبہ بلوچستان میں کیا گیا پہلا ڈرون حملہ تھا جہاں طالبان کی ’’کوئٹہ شوریٰ‘‘ مقیم ہے۔

مگر قبائلی علاقے کے باہر کیے جانے والے ڈرون حملے میں ملا منصور کی ہلاکت سے دونوں ممالک کے پہلے سے تناؤ کا شکار تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے۔

پاکستان کو کیا معلوم تھا؟

یہ ابھی واضح نہیں کہ پاکستانی حکام ملا منصور کے بارے میں کیا جانتے تھے اور انہوں نے امریکہ کو اس سلسلے میں کتنی معلومات فراہم کیں مگر مبصرین کے مطابق اس کا جواب حملے کے ان دو ممالک کے تعلقات پر اثرات میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔

رینڈ کارپوریشن سے تعلق رکھنے والے جیسن کیمبل نے کہا کہ ’’یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کیا بات جانتے تھے اور کیا نہیں مگر اس وقت میں یہ کہوں گا کہ اگر مستقبل قریب میں اس طرح کے حملے نہ ہوئے تو اس ایک واقعے کا تعلقات پر کوئی غیرمعمولی اور طویل المدتی اثر نہیں ہو گا۔‘‘

پاکستان کے دفتر خارجہ نے جمعرات کو ایک مرتبہ پھر کہا کہ ڈرون حملہ پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے اور کہا کہ ’’تمام شواہد‘‘ سے معلوم ہوتا تھا کہ مارا جانے والا رہنما ملا منصور امن مذاکرات میں شرکت کی تیاری کر رہا تھا۔

یہ مؤقف امریکہ کے اس بیان کی تردید کرتا ہے کہ ملا منصور ’’امن کی راہ میں ایک رکاوٹ‘‘ تھا جس نے مذاکرات کی مخالفت کی اور دیگر طالبان کو بھی مذاکرات میں شرکت سے روکا۔

ایران پر الزام

ملا منصور کا پاکستانی پاسپورٹ ایک فرضی نام سے جاری کیا گیا تھا مگر اس پر طالبان رہنما کی تصویر کے علاوہ مہریں ثبت تھیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے ایران کا سفر کیا۔

اس سے ان قیاس آرائیوں نے جنم لیا کہ ایرانی انٹیلی جنس اداروں سے سی آئی اے کو ملا منصور کے بارے میں اطلاع فراہم کی ہو گی اگرچہ اس بات کے کوئی شواہد موجود نہیں۔

افغانستان کی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ امراللہ صالح نے اپنے فیس بک صفحے پر لکھا کہ ’’میرا پیشہ ورانہ مفروضہ اور قیاس یہ ہے کہ ملا منصور کی ہلاکت میں امریکہ اور ایران کے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان تعاون کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔ 2002 سے اب تک ایران نے دہشت گردی کے بارے میں امریکہ کے نظریات، اس کے خلاف جنگ اور مشرق وسطیٰ اور دیگر علاقوں میں سلامتی و استحکام لانے کی امریکی حکمت عملی کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

افغان باغی گروپ حزبِ اسلامی کے قائد گلبدین حکمتیار نے بھی ایران پر اسی قسم کا الزام عائد کیا ہے۔

امن مذاکرات پر اثر

رواں ماہ افغانستان، پاکستان، چین اور امریکہ کے سفارتکاروں پر مشتمل چار فریقی گروپ نے اسلام آباد میں کابل حکومت کے طالبان سے براہ راست مذاکرات پر بات چیت کی تھی۔

گروپ نے کابل میں طالبان کی طرف سے ایک بڑے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے حملے کرنے والوں کو اس کے نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔

نیویارک یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے افغان امور کے ماہر بارنیٹ روبن نے کہا کہ ڈرون حملہ شاید وہ ’’نتیجہ‘‘ تھا جس کا انتباہ کیا گیا تھا۔ ’’میرے خیال میں پاکستان امن مذاکرات کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن ڈرون حملوں کے دائرے کو نہیں بڑھانا چاہتا اور اگر اس نے ایسا کیا اور مزید طالبان رہنماؤں کو نشانہ بنایا تو اس سے ناصرف مذاکرات کی کامیابی کے امکانات کم ہوں گے بلکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات شدید متاثر ہوں گے۔