افغانستان: قندوز پر طالبان کا ایک اور حملہ

فائل فوٹو

افغانستان کے شمالی شہر قندوز پر طالبان نے ایک بار پھر بڑا حملہ کیا ہے۔ حملے کے ساتھ ہی شہر کی بجلی اور ٹیلی فون سروس معطل ہو گئی۔

طالبان نے شہر پر ایک ایسے وقت میں حملہ کیا ہے جب غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا پر مذاکرات حتمی مراحل میں ہیں۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق طالبان کے قندوز پر حملے کے بعد سرکاری فورسز سے ان کی شدید لڑائی جاری ہے۔ طالبان نے شہر پر مختلف اطراف سے حملہ کیا ہے جبکہ سکیورٹی ادارے شہر کی حفاظت پر مامور ہیں۔

حملے ساتھ ہی شہر کی بجلی معطل ہو گئی جبکہ شہری گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے۔ ٹیلی فونز اور رابطے کے دیگر ذرائع نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔

قندوز اور کابل کے سرکاری حکام کا دعویٰ ہے کہ طالبان نے شہری علاقوں میں پناہ لینا شروع کر دی ہے جس کی وجہ سے ان کے خلاف فضائی کارروائی ممکن نہیں۔

حکام نے بتایا کہ کچھ عسکریت پسند ایک سرکاری اسپتال میں بھی داخل ہوئے ہیں۔

وزارت داخلہ نے دعویٰ کیا ہے کہ فورسز کی فضائی کارروائی اور زمینی لڑائی میں طالبان کے 34 جنگجو مارے گئے ہیں۔

وزارت داخلہ کے مطابق تین مختلف علاقوں میں طالبان اور فورسز میں شدید لڑائی میں کئی جنگجو نشانہ بنے جبکہ شہر میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔

افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے بتایا ہے کہ قندوز شہر کے کچھ علاقوں میں سکیورٹی فورسز طالبان کے حملے کا دفاع کر رہے ہیں، فورسز کی اولین کوشش عام آبادی کا تحفظ ہے۔

ایک ٹوئٹ میں صدیق صدیقی نے کہا کہ ہمیشہ کی طرح طالبان نے شہری آبادی میں پوزیشنز لی ہیں۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی قندوز پر حملے کی تصدیق کی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ دو سال میں یہ تیسری بار ہے جب طالبان نے قندوز شہر پر حملہ کیا ہے۔ گزشتہ حملوں میں بھی طالبان نے شہر کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا تاہم فورسز کی فضائی اور زمینی کارروائی کے بعد طالبان شہر سے باہر نکل گئے تھے۔

واضح رہے کہ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ اور طالبان افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے معاہدے کے قریب ہیں۔ قندوز کو اسٹریٹجک طور پر انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔ طالبان کے گزشتہ دونوں بار حملوں میں بھی شہر کے بڑے حصے ان کے کنٹرول میں آ گئے تھے تاہم بعد ازاں شدید لڑائی میں ان کو پسپائی اختیار کرنی پڑی تھی۔

افغان امور کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے سے جنگ کا خاتمہ حتمی نہیں تاہم اس سے بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ افغان حکومت اور طالبان میں معاہدہ امن کی جانب اہم قدم ہو سکتا ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات اچھے انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں تاہم فوجی انخلا پر فریقین ابھی کسی حتمی معاہدے تک نہیں پہنچے ہیں۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے طالبان ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے اس حالیہ بیان پر کہ طالبان سے معاہدے کے بعد بھی کچھ امریکی فوج افغانستان میں موجود رہے گی، طالبان کو تحفظات ہیں کیونکہ وہ مکمل طور پر امریکہ کی فوج کے انخلا کے خواہش مند ہیں۔

اس وقت 20 ہزار کے قریب غیر ملکی فوجی موجود ہیں جن میں اکثریت امریکہ کے فوجیوں کی ہے۔ یہ فوجی امریکی قیادت میں نیٹو کا حصہ ہیں جن کا بڑا کام افغان فورسز کی تربیت، معاونت اور مشاورت کرنا ہے جبکہ کچھ امریکی فورسز انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کا حصہ بھی بنتی ہیں۔

یاد رہے کہ افغانستان میں دو روز قبل ایک امریکی فوجی جھڑپ میں مارا گیا تھا جو افغانستان میں 10 دن کے دوران مارا جانے والا تیسرا فوجی ہے۔