مقامی میڈیا میں سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق افغانستان کے شمالی صوبے میں طالبان باغیوں کے خلاف ہونے والی امریکی فضائی کارروائیوں میں درجنوں باغیوں کے علاوہ عام شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
افغان اسپیشل فورسز غیر ملکی فضائی مدد سے شورش زدہ قندوز صوبے کے چاردرہ ضلع میں باغیوں کے خلاف بڑی کارروائی میں مصروف ہیں۔
افغان اسپیشل فورسز کے ترجمان احمد سلام نے کہا کہ اس دوران طالبان عسکریت پسندوں نے ملحقہ صوبے بغلان سے باغیوں کی مدد کے لیے کمک بھیجی جس کے ردعمل میں افغان فورسز نے جمعہ کو دیر گئے نیٹو سے مقامی فورسز کی مدد کے لیے فضائی کارروائی کرنے کی درخواست کی۔
تاہم انہوں نے عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے خلاف کارروائی شروع ہونے سے پہلے دیہاتیوں نے یہ علاقہ خالی کر دیا تھا اور فضائی کارروائیوں میں 30 سے زائد حکومت مخالف جنگجو ہلاک ہو ئے۔
مقامی لوگوں اور سیاسی راہنماؤں کا کہنا ہے کہ طالبان نے عام شہریوں کے ایک گروپ کو لاشیں اور زخمیوں کو لانے کے لیے اس جگہ پر بھیجا جہاں بمبار ی کی گئی تھی۔ اس دوران امریکی ڈورن طیارے سے مبینہ طور پر فائر کیے جانے والے میزائل سے وہ ہلاک ہو گئے۔
طالبان کے ترجمان نے کہا کہ جنگجوؤں نے افغان فورسز کے حملے کو پسپا کر دیا ہے اور اس علاقے میں شدید لڑائی جاری ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ رات کو ہونے والی بمباری امریکی طیاروں نے کی اور "دسیوں عام شہریوں" کو ہلاک کیا۔
جنگ کے محاذ سے متعلق دونوں جانب سے کیے جانے والے دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔ امریکہ کی فوج نے بھی تاحال شہریوں کی ہلاکت کے الزامات پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔
قندوز کے صوبائی دارالحکومت کے نواحی علاقوں پر یا تو طالبان کا کنٹرول ہے یا وہاں ان کا اثر و رسوخ ہے۔ امریکہ کی حمایت یافتہ افغان فورسز انہیں ان علاقوں سے بیدخل کرنے کوششیں جار ی رکھے ہوئے ہیں تاہم ابھی تک انہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی ہے۔
باغیوں نے دو سال قبل چند دنوں کے لیے قندوز پر قبضہ کر لیا تھا جسے واگزار کروانے کے لیے افغان فورسز کی مدد کے لیے کی جانے والے امریکی فضائی کارروائی کے دوران غلطی سے اس علاقے میں 'ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز' کے ایک اسپتال پر بھی بمباری کی گئی جس کی وجہ سے اس کو شدید نقصان پہنچا۔
افغانستان کے بعض علاقوں میں لڑائی میں شدت آنے کی وجہ سے عام شہری بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ رواں سال عام شہریوں کی ہلاکتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا اور ان کی طرف سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2017ء کے پہلے نو ماہ میں فضائی کارروائیوں میں عام شہریوں کے جانی نقصان میں 52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
عام شہریوں کی ہلاکت سے متعلق سامنے آنے والی تازہ ترین رپورٹ سے ایک روز قبل عالمی فوجداری عدالت کی پراسیکیوٹر نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ مئی 2003 میں افغانستان میں جنگی جرائم کے الزامات کی باقاعدہ تحقیقات شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
فاتؤ بنسودا نے جمعہ کو جاری ایک بیان میں کہا کہ "یہ یقین کرنے کے لیے معقول بنیاد موجود ہے کہ افغانستان میں مسلح جھڑپوں کے دوران جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم" کا ارتکاب ہوا۔ انہوں نے افغانستان میں امریکی فورسز اور امریکی خفیہ ایجنسی 'سی آئی اے' کی طرف سے مبینہ طور پر کیے جانے والے تشدد کے معاملے کی تحققیات کا امکان بھی ظاہر کیا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکہ عالمی فوجداری عدالت کا رکن نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ ' ایچ آر ڈبلیو' نے آئی سی سی کے اعلان کو خوش آئند قرار دیتے کہا کہ ایک عرصے سے ایسے اقدام کی ضرورت تھی۔
ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ امریکی فوجیوں اور سی آئی اے کے عہدیداروں کی طرف سے روا رکھے جانے والے مبینہ تشدد کے معاملے کی آئی سی سی بھی ممکنہ طور پر تحقیقات کر سکتی ہے یہ اس بات کی غمازی ہے کہ طاقتور ملک کے شہری بھی اس عدالت کے قانونی عمل داری سے باہر نہیں ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ "عدالت امریکی فورسز کے کردار سے متعلق جو بھی فیصلہ کرے، ایک طویل عرصے تک مشکلات کا شکار افغانستان کے عوام کو عالمی توجہ کی ضرورت ہے۔ اور اس سے بھی اہم بات یہ ہی کہ انہیں انصاف ملنا چاہیے۔"
دوسری طرف امریکہ کی فوج کا کہنا ہے کہ افغانستان کے مشرقی صوبے لوگر میں ہفتے کی دوپہر کو ہونے والی ایک کارروائی کے دوران زخمی ہونے والا امریکی فوجی چل بسا۔
افغانستان میں امریکی فورسز کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے کہا کہ "افغانستان میں امریکہ کی فورسز کی طرف سے اپنی جان پیش کرنے والے اپنے بھائی کے خاندان سے ہم دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔"