امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات ختم کرنے کے اعلان کے بعد طالبان وفد کے دورہ ماسکو کا انکشاف ہوا ہے۔ جہاں طالبان نمائندوں نے روسی حکام کے ساتھ تازہ ترین صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
روس کے ذرائع ابلاغ نے طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمعے کو ماسکو میں طالبان وفد نے روس کے ایلچی برائے افغانستان ضمیر کوبلو سے ملاقات کی اور افغانستان کی صورتحال پر بات چیت کی۔
طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شیر محمد عباس ستنکزئی نے روسی ٹی وی 'رشیا ٹوڈے' کو بتایا کہ طالبان اور امریکہ کے مذاکرات مکمل ہو چکے تھے۔ ان کے بقول وہ معاہدے کے لیے دستخطوں کی تقریب کی تیاری کر رہے تھے جب اچانک صدر ٹرمپ نے حیران کن طور پر مذاکرات کو مردہ قرار دے دیا۔
طالبان مذاکرات کار محمد عباس نے پہلی مرتبہ معاہدے سے متعلق بعض تفصیلات بھی بتا دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت افغانستان میں مکمل فائر بندی پر اتفاق ہو گیا تھا۔ جب کہ امریکی فوج کے انخلا کے لیے محفوظ راستہ دینے اور 23 ستمبر کو بین الافغان مذاکرات شروع کرنے پر بھی معاملات طے پا گئے تھے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کا اچانک اعلان کر دیا تھا۔ صدر نے مرحلہ وار ٹوئٹس میں انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے طالبان نمائندوں اور صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ مدعو کیا تھا۔ تاہم طالبان کی جانب سے کابل میں کار بم حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا۔ اس حملے میں ایک امریکی فوج بھی ہلاک ہو گیا تھا۔
محمد عباس ستنکزئی کا کہنا تھا کہ وہ امن مذاکرات بحال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کیوں کہ افغانستان کے مسئلے کا حل مذاکرات کے علاوہ ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہم امید کرتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر واپس آئیں گے۔"
محمد عباس ستنکزئی نے خبردار کیا کہ اگر امریکہ مذاکرات کے ذریعے امن نہیں چاہتا تو طالبان بھی مزید سو سال تک لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ محمد عباس ستنکزئی نے اعتراف کیا کہ گزشتہ 10 دنوں میں جنگ کے دوران ایک ہزار سے زائد طالبان جنگجو ہلاک ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر "اگر وہ ہمارے ایک ہزار سے زائد ساتھیوں کو ہلاک کر سکتے ہیں تو ہم ان کے ایک یا دو فوجیوں کو کیوں نہیں مار سکتے۔ یہ ہمارا حق ہے ہم نے اپنا اور اپنے لوگوں کا دفاع کرنا ہے۔"
روس کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریہ زخاروا کا ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران کہنا تھا کہ ان کی حکومت مذاکرات دوبارہ شروع کرنے سے متعلق طالبان کے موقف کو سراہتی ہے۔ ان کے بقول افغانستان میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔
روس نے رواں سال ماسکو میں طالبان اور مختلف افغان دھڑوں کے درمیان بات چیت کا بھی اہتمام کیا تھا۔ جس میں افغان سول سوسائٹی، عمائدین، صحافیوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے طالبان نمائندوں سے گفت و شنید کی تھی۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آغاز رواں سال کے آغاز میں ہوا تھا۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے متعدد ادوار کے بعد فریقین معاہدے کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے۔ تاہم صدر ٹرمپ کے اچانک اعلان کے بعد صورتِ حال یکسر تبدیل ہو گئی۔