افغان طالبان کا ایک چار رکنی وفد اسلام آباد پہنچ چکا ہے جہاں وہ افغانستان میں امن عمل سے متعلق سینئر پاکستانی عہدیداروں سے ملاقات کرے گا۔
طالبان کے دورۂ اسلام آباد پر بات کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا ہے کہ وہ منگل کو طالبان کے وفد سے ملاقات کریں گے۔
افغان طالبان کے وفد کی قیادت ملا عبدالغنی برادر کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق افغان طالبان کا وفد پاکستان میں افغان مہاجرین کو درپیش مسائل پر بھی بات چیت کرے گا۔
دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق طالبان وفد پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی دعوت پر یہ دورہ کر رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب کابل انتظامیہ کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں رکاوٹیں درپیش ہیں اور امن معاہدے کے تحت ان کے تمام قیدی رہا نہیں کیے جا رہے جس کے باعث ترجمان کے مطابق نئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیاں رواں برس فروری کے آخر میں ہونے والے امن معاہدے کے تحت افغان حکومت کو طالبان کے 5000 قیدی رہا کرنا تھے جب کہ طالبان کو بھی اپنی تحویل میں موجود ایک ہزار افغان حکومت کے قیدی رہا کرنا تھے۔
اطلاعات کے مطابق طالبان ایک ہزار قیدی رہا کر چکے ہیں جب کہ افغان حکومت نے اب تک تقریباً چار ہزار 780 قیدی رہا کیے ہیں۔
طالبان ترجمان سہیل شاہین کے مطابق ان کے تمام قیدی رہا ہونے کے ایک ہفتے کے اندر بین الافغان امن مذاکرات شروع کیے جا سکتے ہیں۔
'دورے کا مقصد امن کی راہ میں رکاوٹیں دور کرنا ہے'
سینئر صحافی اور افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی کے مطابق افغان طالبان کا یہ دورہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ملا عبدالغنی برادر اس وفد کی قیادت کر رہے ہیں جو قطر میں قائم سیاسی دفتر کے سربراہ ہیں اور طالبان تحریک کے نائب امیر بھی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بھی کوشش ہو گی کہ وہ افغان طالبان کو تشدد میں کمی پر راضی کرسکیں تاکہ کابل حکومت جلد از جلد قیدیوں کی رہائی کو ممکن بنائے۔
ان کے بقول پاکستان طالبان سے یہ بھی کہے گا کہ وہ اپنے حملوں میں کمی کریں تاکہ تشدد میں کمی آئے، حالات بہتر ہوں اور بین الافغان امن مذاکرات شروع ہو سکیں۔
اسلام اباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ حالیہ دورۂ چین کے دوران انہوں نے چینی ہم منصب سے درخواست کی تھی کہ وہ بھی چین کی جانب سے افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی کو پاکستان بھیجیں۔ ان کے مطابق اس ضمن میں وہ جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔
افغان طالبان کا مؤقف ہے کہ رواں برس فروری میں امریکہ کے ساتھ طے پانے والے امن معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات سے پہلے ان کے تمام قیدیوں کی رہائی ضروری ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب افغان حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت نے طالبان کے باقی ماندہ 400 قیدیوں میں سے 80 کو رہا کر دیا ہے۔ اب طالبان بھی اپنی تحویل میں موجود افغان کمانڈوز اور ہوا بازوں کو رہا کریں۔
یاد رہے کہ کچھ مغربی ممالک نے افغان حکومت سے کہا ہے کہ ان کے شہریوں کے قتل میں ملوث طالبان قیدیوں کو رہا نہ کیا جائے۔ افغان لویہ جرگہ نے حال ہی میں تمام طالبان قیدیوں کی رہائی کی منظوری دی تھی۔
امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات ميں طالبان کی ٹيم کی سربراہی کرنے والے رہنما شير محمد عباس ستنکزئی کا کہنا ہے کہ فروری میں کیے جانے والے امن معاہدے کی پہلی شق پر بھی مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہوا ۔ اانہون نے الزام لگیا کہ قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے صدر اشرف غنی حیلے بہانے کر رہے ہیں جس کا مقصد صرف اور صرف اپنے اقتدار کو دوام بخشنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ اُنہیں قیدیوں سے متعلق کسی بھی قسم کی نئی فہرست فراہم نہیں کی گئی اور اگر کوئی ایسی کسی نئی فہرست کا ذکر افغان حکومت کر بھی رہی ہے تو وہ معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی۔
ان کے بقول طالبان 1005 افغان قیدی رہا کر چکے ہیں۔
شیر عباس ستنکزئی کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی مزید رہائی، تشدد میں کمی یا جنگ بندی پر بات چیت بین الافغان امن مذاکرات کے پلیٹ فارم پر ہی زیر بحث لائے جا سکتے ہیں۔
بین الافغان امن مذاکرات کے حوالے سے شیر عباس ستنکزئی نے بتایا کہ طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ کی جانب سے ان کی سربراہی میں 20 رکنی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جس میں 13 نئے افراد رہبری شوریٰ سے شامل کیے گئے ہیں۔
ان کے مطابق یہی ٹیم امریکہ سے کیے جانے والے مذاکرات کے تحت عمل میں آنے والے معاہدے اور بین الافغان امن مذاکرات کو جاری رکھنے کی پابند ہو گی اور اس ٹیم کو تمام اختیارات دے دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ ٹیم ہر طرح سے آزاد ہے اور وہ اپنی سفارشات ملا ہیبت اللہ کو دے گی۔