پولیس افسر طاہر داوڑ کے سرحد پار افغانستان میں قتل کی اطلاعات

فائل

افغان حکام کی طرف سے ابھی تک طاہر داوڑ کی لاش پاکستانی حکام کے حوالے نہیں کی گئی ہے۔

پشاور کے ایک سینئر پولیس عہدیدار طاہر خان داوڑ سرحد پار افغانستان میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے ہیں تاہم تحریکِ طالبان پاکستان کے ایک ترجمان نے قتل میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کی ہے۔

افغان حکام کی طرف سے ابھی تک طاہر داوڑ کی لاش پاکستانی حکام کے حوالے نہیں کی گئی ہے۔

اطلاعات کے مطابق لاش کی حوالگی کے سلسلے میں بارڈر پر پاک افغان حکام کے درمیان بات چیت جاری ہے جب کہ دوسری جانب، طورخم بارڈر پر قبائلی عمائدین بڑی تعداد میں طاہر داوڑ کی لاش وصول کرنے کیلئے جمع ہیں۔

پشاور میں اعلیٰ پولیس حکام اور اسلام آباد میں فوج کے شعبہٴ تعلقات عامہ کے افسران نے بھی طاہر خان داوڑ کی طالبان عسکریت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہونے کی تصدیق کی ہے۔

منگل کے شام سے طاہر خان داوڑ کی لاش کی تصاویر سماجی رابطے ویب سائٹس پر گردش کر رہی تھیں۔ لاش کے ساتھ طاہر خان داوڑ کی سرکاری شناخت اور طالبان عسکریت پسندوں کا تحریر کردہ ایک خط بھی ملا ہے۔

اس خط کے ذریعے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان، محمد خراسانی نے طاہر خان داوڑ کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

تاہم بدھ کو طالبان ترجمان نے ایک بیان کے ذریعے اور بعض صحافیوں کو ٹیلی فون کرکے قتل میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

پشاور پولیس کے سینئر عہدیدار طاہر خان داوڑ کو پچھلے مہینے 27 اکتوبر کو اسلام آباد سے اس وقت نامعلوم افراد نے اغوا کیا جب وہ دفتر سے چھٹی پر گئے تھے۔ طاہر خان داوڑ کے گھر والے بھی اسلام آباد میں رہائش پذیر تھے۔

حکام کے بقول طاہر خان داوڑ کو سرحد کے قریب مہمند درہ میں، جبکہ دوسری اطلاع کے مطابق دربابا کے علاقے میں قتل کیا گیا۔ دونوں علاقوں میں پاکستان سے افغانستان منتقل ہونے والے عسکریت پسندوں کے ٹھکانے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل سرحد، جسے ’ڈیورنڈلائن‘ بھی کہا جاتا ہے، اب پچھلے تین سالوں سے پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے مکمل کنٹرول میں ہے، جبکہ سرحدی گزر گاہوں پر بغیر پاسپورٹ اور ویزہ کے آنے جانے پر مکمل پابندی ہے۔