شام: مرکزی حکوت کا کرد فورسز سے جنگ بندی معاہدہ، اسد کے حامیوں سے مل کر مقابلہ کرنے پر اتفاق

شام کے عبوری صدر اور ایس ڈی ایف کے رہنما نے پیر کو معاہدے پر دستخط کیے۔

  • بیان میں کہا گیا ہے کہ کرد کمیونٹی شامی ریاست کا اہم ترین جز ہے جو اسے شہری اور آئینی حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔
  • کرد رہنما مظلوم عبدی نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ معاہدہ "نئے شام کی تعمیر کے لیے حقیقی مواقع فراہم کرے گا۔"
  • ایس ڈی ایف نے 2011 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد بشار کی فورسز کی پسپائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شمال اور شمال مشرقی شام میں نیم خود مختار حکومت قائم کرلی تھی۔

ویب ڈیسک _ کردوں کی سیرین ڈیمو کریٹک فورسز نے اپنے زیرِ انتظام شمال مشرق میں خودمختار انتظامیہ کو شام کی قومی حکومت میں شامل کرنے کا معاہدہ کرلیا ہے۔

عبوری صدر احمد الشرع کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت نے سابق حکمران بشار الاسد کے دور میں لگ بھگ 13 برسوں سے شام میں جاری خانہ جنگی میں لڑنے والے تمام گروپس کو غیر مسلح کرنے اور پورے ملک پر کنٹرول قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ان گروپس میں ایس ڈی ایف بھی شامل تھی جسے امریکہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ کردوں کے اس بڑے گروپ کے ساتھ معاہدے کے بعد شام کے لگ بھگ اکثر علاقے مرکزی حکومت کے کنٹرول میں آگئے ہیں جس کے سربراہ احمد الشرع ہیں۔

اس معاہدے کا اطلاق سال کے آخر تک متوقع ہے۔ یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب کچھ ہی دن پہلے شام میں علوی کمیونٹی کے اکثریتی علاقوں میں انتقامی حملے اور کشیدگی کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

علوی کمیونٹی کے خلاف پُرتشدد واقعات کو اسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام کی سیکیورٹی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔



پیر کو شام کی عبوری حکومت کے جاری کردہ بیان کے مطابق فریقین کے درمیان معاہدہ ہوا ہے کہ شمال مشرقی شام میں بشمول سویلین اور فوجی ادارے، سرحدی چوکیاں، ہوائی اڈے، تیل کے کنوئیں اور دیگر تنصیبات مرکزی شامی حکومت کا حصہ بن جائیں گے۔

شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے معاہدے پر دستخط کے بعد ایس ڈی ایف کے رہنما مظلوم عبدی کو احمد الشرع سے مصافحہ کرنے کی تصویر جاری کی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ کرد کمیونٹی شامی ریاست کا اہم ترین جز ہے جو اسے شہری اور آئینی حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔

کرد رہنما مظلوم عبدی نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ معاہدہ "نئے شام کی تعمیر کے لیے حقیقی مواقع فراہم کرے گا۔"

ایس ڈی ایف کیوں اہم ہے؟

ایس ڈی ایف شمالی اور مشرقی شام کے علاقوں میں قائم ڈی فیکٹو نیم خود مختار کرد انتظامیہ کی ڈٰی فیکٹو فوج ہے۔ مرکزی حکومت میں اس کی شمولیت کو اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

نئے معاہدے میں اس بات کا بھی حوالہ دیا گیاہے کہ فورسز ـ "شامی ریاست کو اسد کی باقیات کی جانب سے ملکی سیکیورٹی اور اتحاد کو درپیش خطرات سے لڑنے میں معاونت کرے گی۔"

SEE ALSO: شام: جھڑپوں اور انتقامی حملوں میں دو روز کے دوران ہزار سے زائد افراد ہلاک

شام کے حکام نے پیر کو اسد حکومت کے حامیوں کے خلاف آپریشن ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

شامی آوبزرویٹری فور ہیومن رائٹس کے مطابق گزشتہ دنوں ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 1068 سویلین ہلاک ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر کا تعلق اقلیتی علوی کمیونٹی سے تھا جو سیکیورٹی فورسز یا اتحادی گروپس کی کارروائیوں میں مارے گئے۔

اسد دور میں جبر کا سامنا کرنے والی کمیونٹی

بشار الاسد کی حکومت کے دوران دہائیوں تک شام میں بسنےو الے کردوں کو جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں اپنی زبان بولنے، تہوار منانے کی آزادی بھی نہیں تھی اور کئی مرتبہ انہیں شامی شہریت سے بھی محروم رکھا جاتا تھا۔

ایس ڈی ایف نے 2011 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد بشار کی فورسز کی پسپائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شمال اور شمال مشرقی شام میں نیم خود مختار حکومت قائم کرلی تھی۔

اس کرد فورس کو امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہو گئی اور اس نے 2019 میں داعش کو پسپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اسد حکومت ختم ہونے کے بعد کردوں نے مرکز میں آنے والے نئے حکام کے ساتھ بات چیت پر آمادگی ظاہر کی تھی لیکن غیر مسلح ہونے سے انکار کرنے پر انہیں حال ہی میں ہونے والی قومی کانفرنس میں شریک نہیں کیا گیا تھا۔

یہ معاہدہ کرد ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے قید بانی عبداللہ اجلان کی جانب سے کرد مسلح گروپس سے ہتھیار پھینکنے کی اپیل کے دو ہفتے بعد سامنے آیا ہے۔

پی کے کے کئی دہائیوں سے ترکیہ میں مسلح مزاحمت کر رہی ہے جب کہ ایس ڈی ایف شام میں آزاد حیثیت رکھتی ہے۔


SEE ALSO: ترکیہ: کرد باغی گروپ کا ہتھیار ڈالنے کا اعلان؛ جیل میں قید رہنما کی رہائی کا مطالبہ

تاہم اس پر کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جی) کا اثر زیادہ ہے جسے انقرہ پی کے کے سے الگ ہونے والے دھڑے کے طور پر دیکھتا ہے۔

ترکیہ کی حکومت شام کی نئی حکومت سے قریب ہے اور اس نے امریکہ اور یورپی یونین کی طرح پی کے کے کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے

ترک فوج شمالی شام میں کرد فورسز کے زیرِ انتظام علاقوں پر حملے کرتی رہی ہے اور ترک نواز گروپ نومبر سے شمالی شام میں ایس ڈی ایف کے علاقوں پر حملے کر رہے تھے۔ معاہدے پر تاحال ترکیہ نے کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہے۔