پاکستان اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کو ملانے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر تجارت اور بس سروس کی تاحال معطلی کے باعث منقسم خاندان اور تاجروں کی مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔
بھارت اور پاکستان نے اپریل 2005 میں ایل او سی پر دونوں اطراف میں بسنے والے منقسم خاندانوں کو ملانے اور تجارت کے فروغ کے لیے بس سروس اور تجارت کی اجازت دینے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کے باعث یہ تجارت تنازعات کا شکار رہی ہے۔
ہفتے میں ایک بار سری نگر اور مظفر آباد کے درمیان چلنے والی اس بس سروس کو جسے ' کاروانِ امن' کا نام دیا گیا تھا۔ دونوں ملکوں نے اعتماد سازی کے لیے اٹھایا گیا سب سے بڑا قدم قرار دیا تھا۔
چودہ ماہ بعد یعنی جون 2006 میں ہفتہ وار بس سروس کراسنگ پوائنٹ پونچھ اور راولا کوٹ کے درمیان بھی چلنے لگی تاکہ منقسم خاندانوں کو ایک دوسرے سے ملنے کے لیے سفر کرنے میں آسانیاں ہوں۔ بعد ازاں دونوں ملکوں کے درمیان ان ہی راستوں کے ذریعے تجارت بھی شروع کر دی گئی۔
دو طرفہ تجارت تنازعات کا شکار
اکتوبر 2008 میں 'بارٹر سسٹم' یعنی چیز کے بدلے چیز نظام کے تحت کی جانے والی کسٹم سے پاک یہ تجارت شروع ہی سے کئی تنازعات کا شکار رہی۔
بھارت نے کئی مرتبہ الزام لگایا کہ تجارت کی آڑ میں منشیات کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر اسمگل کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت ایل او سی پر تعینات بھارت اور پاکستان کی افواج کے درمیان آئے دن ہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے بھی متاثر رہی۔
اٹھارہ اپریل 2019 کو بھارتی وزارت داخلہ نے پاکستان میں موجود چند عناصر پر تجارتی راستوں کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے تجارت کو تا حکم ثانی معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔
بھارتی وزارتِ داخلہ کا الزام تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت سخت گیر ریگولیٹری نظام کے قیام تک بند رہے گی اور دعویٰ کیا تھا کہ ایل او سی تجارت کومعطل رکھنے کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اس کے ذریعے جموں و کشمیر کے لوگوں کے فائدے کے لیے صرف جائز تجارت ہو۔
'ایل او سی تجارت کی فوری بحالی کی کوئی امید نہیں'
بھارتی زیرِانتظام کشمیر کے سیاسی اور تجارتی حلقوں میں بھی اس تجارت کی بحالی سے متعلق کسی پیش رفت کی امید نہیں کی جا رہی۔
Your browser doesn’t support HTML5
دو طرفہ تجارت سے وابستہ تاجروں کی انجمن کے صدر ہلال ترکی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے مسلسل بند رہنے کی وجہ سے دونوں جانب کے تاجروں کو ہر ہفتے کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ان کے بقول یہ ایک بہت بڑی زنجیر تھی جس سےتاجر، پرچون فروش، مزدور، ٹرانسپورٹر، وغیرہ جڑے ہوئے تھے۔ اس سے یہاں جموں و کشمیر میں اور پاکستان کے زیرِ کنٹرول کشمیرکی معیشت کو مستحکم بنانے میں بڑی مدد مل رہی تھی۔
صرف مخصوص اشیا کی درآمد و برآمد
ہفتے میں چار دن ٹرکوں کے ذریعے جن اشیا کو بھارتی کشمیر سے پاکستانی کشمیر برآمد کیا جاتا تھا۔ ان میں قالین، غالیچے، دیواروں پر سجائے جانے والے آرٹ کے نمونے، گرم شالیں، نمدا اور گبے (روایتی کشمیری فرشی قالین)، کڑھائی اور سوزن کاری کے نمونے، فرنیچر خاص طور پر اخروٹ کی لکڑی کا بنا ہوا فرنیچر بھی پاکستانی کشمیر بھیجا جاتا تھا۔
اس کے علاوہ لکڑی کی بنی دست کاریاں، تازہ میوے اور سبزیاں، خشک میوہ جات، زعفران، خوشبودار پودے، دھنیہ، مونگ، املی اور سیاہ کھمبی (مشروم)، کشمیری مصالحہ جات، شہد، فوم کے گدے ، رضائیاں اور غلاف بھی پاکستان کے زیرِ انتظام برآمد کیے جاتے تھے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے جو چیزیں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر لائی جاتی تھیں۔ ان میں چاول، جائے نماز اور تسبیح، قیمتی پتھر، گبے، نمدے، پشاوری چپل، طبی جڑی بوٹیاں، مکئی اور مکئی سے تیار کی جانے والی چیزیں، تازہ میوے اور سبزیاں، خشک میوہ جات، شہد، مونگی، املی، سیاہ مشروم، فرنیچر، لکڑی کی بنی دست کاریاں، قالین اور غالیچے شامل تھے۔
ہلال ترکی کا کہنا تھا کہ تجارت کے ساتھ جہاں سیکڑوں تاجروں کا روزگار براہ راست جڑا ہوا تھا وہیں اس نے سرحدی علاقوں میں جہاں روزگار کے کم مواقع میسر ہیں اور دونوں ملکوں کی افواج کےدرمیان آئے دن ہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے زندگی کے معمولات معطل رہتے ہیں کہ عوام کو فائدہ پہنچ رہا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہلال ترکی کا کہنا تھا کہ اس تجارت کی بحالی کا انحصار دونوں ممالک کے تعلقات کی بہتری پر ہے۔
SEE ALSO: واہگہ بارڈر کے راستے بھارت کے لیے افغان تجارت بحال
پاکستان پر اس تجارت کے ذریعے دہشت گردی اور منشیات کی بھارت برآمد کا الزام لگاتے ہوئے بھارتی حکومت نے کہا تھا کہ یہ تجارت اس وقت تک بحال نہیں ہو گی جب تک عسکری تنظیموں کی مالی معاونت اور وادی میں حالات خراب کرنے والوں کا راستہ نہیں روک دیا جاتا۔
جہاں ایک طرف وہ لوگ جو ایل او سی تجارت سے وابستہ رہے ہیں۔ اس کی جلد از جلد بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہیں منقسم خاندان کہتے ہیں کہ سیاسی وجوہات کی بنا پر ایک بار پھر وہ اپنوں سے دُور ہو گئے ہیں۔ وہ اسے انسانی المیہ قرار دے رہے ہیں۔
سری نگر کے ایک شہری میر نور الدین کے بیٹے میر فاروق احمد نے جو 1970 کی دہائی سے مظفر آباد میں رہتے ہیں۔ اپنے والدین سے ملنے کے لیے کاروانِ امنٰ کے ذریعے تین مرتبہ سفر کیا۔ لیکن بس سروس بند ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر وہ اپنوں سے دُور ہو گئے ہیں جس کا بزرگ نور الدین کو بے حد ملال ہے۔
ان کے چھوٹے بیٹے میر فیاض نے کہا کہ اس بس سروس نے اس میں حائل کئی پریشانیوں کے باوجود بھائی اور اس کے بیوی بچوں سے میل جول بحال کر دیا تھا۔ لیکن ایک بار پھر یہ بس سروس سیاست کا شکار ہو گئی ہے۔
پاکسان کی جانب سے تجارت کے غلط استعمال کے الزام کی تردید
پاکستان نے بھارتی حکومت کے تمام الزامات کی تردید کی تھی اور ایل او سی کے ذریعے تجارت کی یک طرفہ معطلی کی مذمت کی تھی۔
پاکستان نے بھارتی فیصلے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سلسلے میں پاکستان سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔
پاکستان کا مؤقف تھا کہ تجارت کی بندش سے متعلق بھارت کے یکطرفہ فیصلے سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات کو ٹھیس پہنچی تھی۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس تجارتی راہداری کو اسمگلنگ، منشیات، جعلی کرنسی اور دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کے بھارتی الزامات من گھڑت ہیں۔
لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے ذریعے تجارت میں مبینہ بے ضابطگیوں اور غلط استعمال کی تحقیقات کی ذمہ داری بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کو سونپی گئی تھی۔
این آئی اے نے اس کیس کی تحقیقات کے دوران جموں و کشمیر میں متعدد مقامات پر چھاپے مارے۔ جن میں ایل او سی کے پار تجارت کرنے والے کئی کشمیری تاجروں کے دفاتر اور مکانات شامل ہیں۔
بعد ازاں اس کی طرف سے دہلی کی ایک خصوصی عدالت میں دائر کی گئی تقریباً تیرہ سو صفحات پر مشتمل فردِ جرم میں بھارتی وزارتِ خارجہ کی طرف سے لگائے گئے تمام الزامات کی تائید کی گئی۔
فردِجرم کے مطابق ایل او سی سے جڑے تاجروں کے رشتے داروں کی ایک اہم تعداد سرحد پار رہتے ہیں۔ جو کالعدم دہشت گرد تنظیموں بالخصوص حزب المجاہدین سے وابستہ ہیں اور ان کے ذریعے اس تجارت کا ناجائز استعمال ہورہا تھا۔
'خرابی سسٹم میں تھی، تاجروں کا کوئی قصور نہیں'
کیا تجارت کا واقعی غلط استعمال ہو رہا تھا؟ اس سوال کے جواب میں ہلال ترکی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ تجارت شروع کرنے سے پہلے اس کے لیے جو ایس او پیز بنی تھیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ ناکافی تھیں۔
ان کے بقول جو سسٹم ان کے سامنے رکھا گیا، انہوں نے اسی کے تحت کام کرنا شروع کیا۔ لیکن اگر آپ واہگہ سرحد یا گجرات پورٹ کی بات کریں گے تو وہاں بھی منشیات اور دوسری قابلِ اعتراضات چیزوں کی کھیپیں پکڑی جاتی ہیں۔
اُن کے بقول غلط عناصر ہر جگہ پر ہوتے ہیں بجائے اس کے سسٹم میں موجود خامیوں کو دور کیا جاتا۔ پورے کا پورا نظام ہی ختم کر دیا گیا جس سے حقیقی تاجر کو زیادہ نقصان ہوا۔
پلوامہ حملے کا بس سروس پر برا اثر
بھارتی کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ میں 14فروری 2019 کو کیے گئے خودکش حملے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان 'کاروانِ امن' بس سروس کو ایک بار پھر معطل کر دیا گیا اور ہر بار دونوں ملکوں نے بس سروس معطل کرنے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پانچ اگست 2019 کو نئی دہلی نے اپنے زیرِانتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی اور اس کے ساتھ ہی ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے براہِ راست وفاق کے کنٹرول والےعلاقوں کا درجہ دے دیا۔
پاکستان نے اس کے ردِ عمل میں اسلام آباد میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر کو واپس بھیج دیا اورپڑوسی ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات کو محدود کرنے کا اعلان کیا۔
جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کے اقدام کو یکطرفہ اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسلام آباد نے دو طرفہ تجارت کو معطل کرنے اور دوطرفہ انتظامات کا جائزہ لینے کا فیصلہ بھی کیا۔
کشمیر تقسیمِ ہند کے بعد کراس فائر کی زد میں
'مارکس وادی کمیو نسٹ پارٹی آف انڈیا' کی جموں و کشمیر شاخ کے سربراہ محمد یوسف کے مطابق جموں و کشمیر تقسیمِ ہند ہی سے کراس فائر کی زد میں رہا ہے۔
اُن کے بقول دونوں اطراف کے کشمیریوں کو قریب لانے کے اقدامات عارضی ثابت ہوتے ہیں اور ہمیشہ سیاست غالب آ جاتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول امید یہ کی جارہی تھی کہ اس پیش رفت سے ہماری امن و امان کی اور ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ کی منزل اور نزدیک آجائے گی۔ لیکن اب ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود گاڑی رکی ہوئی اور وہ تجارت جس سے دونوں طرف کے بے روزگار نوجوانوں نے کچھ امیدیں باندھی تھیں، بند پڑی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ پھر واپس وہیں پہنچے ہیں جہاں پہلے تھے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست کو ایک طرف رکھیں دونوں ملکوں کے عوام کو قریب لائیں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے لیے اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے تجارت اور بس سروس کا دوبارہ بحال کریں۔
یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا کے مطابق 5 اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر کا قانونی اسٹیٹس ہی بدل گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالات اب دن بدن بدتر ہو رہے ہیں۔ عسکریت پسندی بڑھ رہی ہے اور انہیں آر پار بس سروس یا تجارت کی فوری بحالی کا امکان بالکل نظر نہیں آرہا۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت پاکستان تعلقات ہمیشہ غیر مستحکم رہے ہیں۔ حالات کا اونٹ کب کس کروٹ بیٹھتا ہے، اس بارے میں پیش گوئی کرنا آسان نہیں۔