خیبر پختونخوا میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے سروے کا مطالبہ

فائل

جہانزیب خان نے بتایا کہ 1996ء میں آخری بار بچوں کی مشقت کے حوالے سے سروے کیا گیا تھا جس کے مطابق ملک بھر میں 33 لاکھ بچوں سے مشقت لی جارہی تھی۔

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل غیر سرکاری تنظیم 'سپارک' کے عہدیداروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ خیبر پختوخوا اور اس سے ملحق قبائلی علاقوں میں بچوں کی مشقت کے حوالے سے سروے کرایا جائے تاکہ دہشت گردی اور انتہاپسندی سے متاثرہ علاقوں میں بچوں سے محنت اورمشقت لینے کے بارے میں درست اعداد و شمار سامنے آسکیں۔

بچوں سے مشقت کے عالمی دن کے موقع پر پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران 'سپارک' کے صوبائی سربراہ جہانزیب خان نے کہا کہ گزشتہ 15، 20 برسوں میں خیبر پختونخوا اور ملحق قبائلی علاقوں میں ہزاروں لوگ نہ صرف دہشت گردی اور انتہاپسندی میں ہلاک و زخمی ہوئے ہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں بچے اور بچیاں یتیم اور بے آسرا بھی ہوئے ہیں۔

ان کے بقول دہشت گردی اور تشدد کے باعث ہزاروں افراد بے گھر بھی ہوئے ہیں جن میں اکثریت بچوں کی ہے مگر اس بارے میں حکومتی اداروں کے پاس کسی قسم کے اعداد و شمار دستیاب نہیں۔

جہانزیب خان نے بتایا کہ 1996ء میں آخری بار بچوں کی مشقت کے حوالے سے سروے کیا گیا تھا جس کے مطابق ملک بھر میں 33 لاکھ بچوں سے مشقت لی جارہی تھی۔

لیکن مزدوروں کی عالمی تنظیم 'انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن' کے اعداد و شمار کے مطابق 10 سے 17 سال کی عمر کے ان بچوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جن سے مشقت لی جارہی ہے۔

عالمی ادارے کے مطابق پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے جہاں بچوں سے سب سے زیادہ مشقت لی جاتی ہے۔

جہانزیب خان کا مزید کہنا تھا کہ خیبر پختونخواحکومت نے چائلڈ لیبر کے حوالے سے قانون سازی کی ہے اور بے گھر اور بے آسرا بچوں کے لیے 'زمونگ کور' یعنی 'ہمارا گھر' منصوبہ بھی شروع کیا ہے۔

مگر ان کے بقول بچوں کے حقوق سے متعلق قوانین پر عمل درآمدنہیں کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے چائلڈ لیبر میں دن بدن اضافہ ہوتاجارہاہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان بھر میں دو کروڑ 20 لاکھ بچے اب تک اسکول سے باہر ہیں جس کی بنیادی وجہ غربت اورجنگ زدہ حالات ہیں۔