شوگر کمیشن رپورٹ کالعدم قرار دینے کا سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل

سپریم کورٹ آف پاکستان (فائل فوٹو)

پاکستان کی اعلی ترین عدالت سپریم کورٹ نے شوگر انکوائری کمیشن رپورٹ کالعدم قرار دینے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے شوگر ملز مالکان سے جواب بھی طلب کر لیا ہے۔

بدھ کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے شوگر کمیشن رپورٹ کالعدم قرار دینے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت کی۔

اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ سندھ ہائی کورٹ نے تیکنیکی بنیادوں پر کمیشن کو کالعدم قرار دیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ کمیشن کا نوٹی فکیشن گزٹ میں شائع نہیں ہوا۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ سے اُن شوگر ملز نے رُجوع کیا جن کا آڈٹ بھی نہیں ہوا تھا۔

اُن کے بقول شوگر ملز مالکان کو کمیشن کے قیام کا علم تھا، گزٹ نوٹی فکیشن میں تاخیر سے کمیشن کا کام متاثر کیسے ہو سکتا ہے؟ کمیشن نے انکوائری میں صرف حقائق کا تعین کیا تھا۔ ہائی کورٹ حقائق کو کالعدم کیسے قرار دے سکتی ہے؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ کابینہ کی منظوری سے کمیشن میں خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا نمائندہ شامل کیا گیا۔

عدالت نے دلائل سننے کے بعد مختصر فیصلے میں شوگر انکوائری کمیشن اور شوگر کمیشن رپورٹ کالعدم قرار دینے کا سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔

عدالت نے شوگر مل مالکان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب بھی طلب کرلیا جب کہ کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔

سندھ ہائی کورٹ نے شوگر کمیشن رپورٹ کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ نے شوگر کمیشن کی رپورٹ کو کالعدم قرار دیا تھا جس پر وفاقی حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

وفاق نے 27 اگست کو شوگر انکوائری کمیشن کو کالعدم قرار دینے کا سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ عدالت عظمیٰ میں چینلج کیا تھا۔ سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں استدعا کی گئی تھی کہ سندھ ہائی کورٹ کا 17 اگست کا فیصلہ معطل کیا جائے۔

سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کیا تھا؟

گزشتہ ماہ 17 اگست کو سندھ ہائی کورٹ نے شوگر انکوائری کمیشن اور اُس کی رپورٹ کالعدم قرار دی تھی۔

جسٹس کے کے آغا اور جسٹس عمر سیال پر مشتمل سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے شوگر انکوائری کمیشن کے خلاف ملز مالکان کی درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں شوگر انکوائری کمیشن اور اس کی رپورٹ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر اور دیگر متعلقہ اداروں کو حکم دیا کہ وہ چینی کی قلت سے متعلق آزادانہ اور قانون کے مطابق تحقیقات کریں۔

انکوائری کمیشن میں کہا گیا تھا کہ شوگر بحران سے جہانگیر ترین کی شوگر مل نے بھی فائدہ اُٹھایا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ شوگر انکوائری کمیشن نے تمام درخواست گزاروں کو سنے بغیر فیصلہ سنایا۔ کمیشن کی رپورٹ آئین کی شق چار، 10 (A) اور 25 کے منافی ہے۔ اس لیے متعلقہ ادارے کمیشن کی انکوائری رپورٹ کی سفارشات اور تجاویز کی روشنی میں کارروائی نہ کریں۔

ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ نیب اور ایف بی آر گزشتہ کمیشن رپورٹ سے ہٹ کر غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے۔ کمیشن میں شوگر انڈسٹری سے متعلق معلومات رکھنے والوں کو بھی شامل کیا جائے۔

چینی، گندم بحران کیا تھا؟

پاکستان میں رواں برس جنوری میں اچانک گندم اور چینی کا بحران پیدا ہو گیا تھا لیکن حکومت کا دعویٰ تھا کہ ملک بھر میں گندم اور چینی کے وافر ذخائر موجود ہیں۔

اس تمام صورت حال کے بعد ملک بھر میں آٹا 45 روپے فی کلو سے 70 روپے فی کلو تک پہنچ گیا اور چینی بھی مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہو گئی۔ مارکیٹ میں 52 روپے فی کلو میں ملنے والی چینی کی قیمت 75 سے 80 روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔

اس تمام بحران میں وزیرِ اعظم کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین اور بعض حکومتی شخصیات پر کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے جس پر وزیرِ اعظم عمران خان نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

ایف آئی اے کی چھ رکنی ٹیم نے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں اس تمام معاملے کی تحقیقات کرنے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کی۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے چینی بحران کے ذمے داروں کو سزا دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی سفارش پر انکوائری کمیشن قائم کیا۔

یہ کمیشن انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت قائم کیا گیا اور یہ پہلے ہی اپنا کام شروع کر چکا تھا۔

انکوائری کمیشن کی نو ٹیموں نے بحران سے فائدہ اٹھانے والی شوگر ملز کا فرانزک آڈٹ کیا جس میں جہانگیر ترین کی شوگر مل بھی شامل تھی۔

کمیشن نے اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد رپورٹ حکومت کو ارسال کی جس کے بعد 21 مئی کو وزیرِ اطلاعات سینیٹر شبلی فراز اور وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے خد و خال کے بارے میں بتایا۔

تحقیقاتی رپورٹ میں جہانگیر ترین کے علاوہ اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما شہباز شریف کے خاندان کو بھی چینی بحران میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔

رپورٹ میں وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار کا نام بھی سامنے آیا جب کہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس بحران سے جہانگیر ترین کی شوگر مل کو 56 کروڑ روپے کا فائدہ ہوا۔