جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم، حکومت فیصلے سے 'مطمئن'

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ (فائل فوٹو)

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ریفرنس کالعدم قرار دینے کی درخواست منظور کرلی، 10 میں سے 7 ججز نے جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ کے ٹیکس معاملات ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ فیصلے کے مطابق، ایف بی آر اہلیہ کو 7 دن کے اندر نوٹس جاری کرے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کی۔

کیس کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا اور بعد میں شام چار بجکر دس منٹ پر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا جب کہ عدالت نے جسٹس قاضی فائز کو جاری شوکاز نوٹس بھی کالعدم قرار دیے۔

عدالت نے حکومت کے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے حوالے سے فیصلہ میں کچھ نہیں لکھا۔ اس یونٹ کے بارے میں تفصیلی فیصلہ میں لکھا جائے گا۔ کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

مختصر فیصلہ

عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا فائز عیسیٰ کی درخواست کو منظور کرلیا اور ان کے خلاف دائر کردہ حکومتی ریفرنس اور شوکاز نوٹس کالعدم قرار دیدیا ہے۔ بینچ میں شامل 10 ججز میں سے 7 ججز نے جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ کے ٹیکس معاملات ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم دیا ہے، فیصلے کے مطابق ایف بی آر اہلیہ کو 7 دن کے اندر نوٹس جاری کرے۔

ایف بی آر کے نوٹس جج کی سرکاری رہائش گاہ پر ارسال کیے جائیں، ہر پراپرٹی کا الگ سے نوٹس جاری کیا جائے، ایف بی آر حکام فیصلہ کرکے رجسٹرار سپریم کورٹ کو آگاہ کریں، چیئرمین ایف بی آر خود رپورٹ پر دستخط کرکے رجسٹرار کو جمع کرائیں گے، ایف بی آر حکام معاملے پر التوا بھی نہ دیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر قانون کے مطابق، کارروائی بنتی ہو تو جوڈیشل کونسل کارروائی کی مجاز ہوگی۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ نوٹسز اسلام آباد میں درخواست گزار کی آفیشل رہائش گاہ پر کوریئر سروس یا دیگر ایسے ذرائع کے ذریعے جسے مناسب سمجھا جا سکتا ہے جاری کیے جائیں گے۔

فریقین نوٹسز کے جوابات، کسی مواد اور ریکارڈ جو مناسب سمجھیں ان کے ساتھ جمع کروائیں گے، اگر ان میں سے کوئی ملک سے باہر ہو تو یہ اس شخص کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ وقت پر جواب جمع کروائے اور کمشنر کے سامنے کارروائی کو کسی ایسے شخص کی پاکستان میں عدم موجودگی کی بنا پر ملتوی یا تاخیر کا شکار نہیں کیا جائے گا۔ جوابات موصول ہونے پر اور اگر مدعی کی جانب سے وضاحت کے لیے اضافی دستاویزات یا ریکارڈ جمع کرایا جاتا ہے تو کمشنر مدعی کو ذاتی طور پر یا نمائندہ/وکیل کے ذریعے سماعت کا موقع دے گا اور 2001 کے آرڈیننس کے مطابق حکم جاری کرے گا۔

عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ نوٹسز موصول یونے کے بعد کمشنر 60 دن کے اندر سماعت مکمل کرے گا اور وصولی کے 75 دن کے اندر حکم جاری کرے گا اور مذکورہ وقت میں کوئی التوا یا توسیع نہیں ہوگی۔

کمشنر کی جانب سے احکامات جاری ہونے کے 7 روز کے اندر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین مساعت سے متعلق اپنے دستخط شدہ رپورٹ اپنے سپریم کورٹ کے سیکریٹری کے ذریعے کونسل میں جمع کروائیں گے۔

سکریٹری رپورٹ کو کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھیں گے جو مناسب انداز میں اگر درخواست گزار سے متعلق کونسل کچھ تعین کرے تو رپورٹ کو جائرے، کارروائی، حکم یا سماعت کے لیے کونسل کے سامنے پیش کریں گے، اگر کونسل کی جانب سے کوئی کارروائی کا حکم یا ہدایت دی جاتی ہے تو وہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ازخود نوٹس کا دائرہ کار استعمال کرے گی۔

آرڈر کے 100 دن کے اندر چیئرمین ایف بی آر کی طرف سے سیکرٹری کو رپورٹ موصول نہ ہونے پر وہ چیئرمین کونسل کو آگاہ کریں، چیئرمین کونسل کی ہدایت پر سیکریٹری چیئرمین ایف بی آر سے رپورٹ جمع نہ کرانے پر وضاحت طلب کریں۔

اضافی نوٹ

سپریم کورٹ کے بینچ میں شامل جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ تحریر کیے، جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی جج قانون سے بالاتر نہیں، ججز کو دیگر شہریوں کی طرح بنیادی حقوق حاصل ہیں، ججز کے حقوق کا تحفظ کرنا عدلیہ کی آزادی کیلئے لازمی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست ناقابل سماعت قرار دی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ کسی بھی جج کو خود درخواست دینا زیب نہیں دیتا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے آئینی درخواست نمبر 17/2019 کو برقرار نہیں رکھا۔

عدلیہ جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف ریفرنس کالعدم قرار دے، منیر اے ملک فیصلہ سے قبل صبح کے وقت جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل منیرا اے ملک نے جواب الجواب میں کہا کہ الزام عائد کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے جان بوجھ کر جائیدادیں چھپائیں جب کہ عدالتی کمیٹی کہتی ہے غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق قانون میں بھی ابہام ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کبھی اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں، الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جوابدہ ہوتا ہے، حکومت ایف بی آر جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آگئی، ایف بی آر اپنا کام کرے ہم نے کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی، جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا، چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف ریفرنس کالعدم قرار دے۔

منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا کام صرف حقائق کا تعین کرنا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل صدر کے کنڈکٹ اور بدنیتی کا جائزہ نہیں لے سکتی، سپریم جوڈیشل کونسل نے افتخار چوہدری کو طلبی کا نوٹس جاری کیا تھا جب کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے ٹی او آرز قانون کیخلاف ہیں، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی تشکیل کیلئے رولز میں ترمیم ضروری تھی، وزیر اعظم کو کوئی نیا ادارہ یا ایجسنی بنانے کا اختیار نہیں ہے۔ جو ریلیف جسٹس قاضی فائز عیٰسی کو چاہیے وہ جوڈیشل کونسل نہیں دے سکتی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ آپ کا موقف تھا کہ ریفرنس سے پہلے جج کی اہلیہ سے دستاویز لی جائیں۔ کل کی سماعت کے بعد آپ کے موقف کو تقویت ملتی ہے جس پر منیر اے ملک نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم ایسا قانون چاہتے ہیں کہ ایک ادارہ دوسرے کی جاسوسی کرے؟

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دئیے جج کے بنیادی حقوق زیادہ اہم ہیں، یا ان کا لیا گیا حلف؟ منیر اے ملک نے کہا عدالت درخو است کو انفردی شخص کے حقوق کی پٹیشن کے طور پر نہ لے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ لندن جائیدادوں کی تلاش کیلئے' 192.کوم' کو استعمال کیا گیا، 192.com پر سرچ کرنے کیلئے ادائیگی کرنا پڑتی ہے، آن لائن ادائیگی کی رسید ویب سائٹ متعلقہ بندے کو ای میل کرتی ہےضیا المصطفی نے ہائی کمشن کی تصدیق شدہ جائیداد کی تین نقول حاصل کیں، جن سیاسی شخصیات کو سرچ کیا اس کی رسیدیں بھی ساتھ لگائی ہیں، حکومت رسیدیں دے تو سامنے آجائیگا کہ جائیدادیں کس نے سرچ کیں؟ صحافی وحید ڈوگر نے ایک جائیداد کا بتایا تھا، اگر سرچ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے کیں تو رسیدیں دے۔

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دئے کہ اے آر یو نے بظاہر صرف سہولت کاری کا کام کیا ہے۔ منیر اے ملک نے کہا کہ حکومت کہتی ہے کہ دھرنا فیصلے پر ایکشن لینا ہوتا تو دونوں ججز کے خلاف لیتے، حکومت صرف فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹانا چاہتی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک نے جواب الجواب پر دلائل مکمل کے تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ اسلام ہر مرد اور عورت کو جائیداد رکھنے کا حق دیتا ہے۔ انہوں نے دوران دلائل سورہ النساء کا حوالہ بھی دیا۔

اے آر یو یونٹ کیلئے قانون سازی نہیں کی گئی، رضا ربانی

سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی نے دلائل میں کہا کہ تاثر دیا گیا کہ آے ار یو لیگل فورس ہے، حکومت کے مطابق وزیر اعظم ادارہ بنا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم وزارت یا ڈویزن بنا سکتے ہیں، قوائد میں جن ایجنسیوں کا زکر ہے وہ پہلے سے قائم شدہ ہیں جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جتنی بھی ایجنسیاں موجود ہیں ان کو قانون کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ اے آر یو یونٹ کو لامحدود اختیارات دیئے گئے، نوٹی فیکیشن کے مطابق اے آر یو کو کابینہ کے فیصلے کا تحفظ حاصل ہے لیکن اے آر یو یونٹ کیلئے قانون سازی نہیں کی گئی۔

خیبرپختوںخواہ بار کونسل کے وکیل افتخار گیلانی نے دلائل میں کہا کہ کے پی کے کے بیس ہزار وکلا کی نمائندگی کررہا ہوں۔ اس مقدمے میں انتیس درخواستیں مختلف بار کونسل اور بار ایسو سی ایشنز نے دائر کی ہیں، یہ درخواست گزار جسٹس قاضی فائز کے رشتہ دار نہیں، یہ درخواست گزار عدالتی نظام کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی ریفرنس بے بنیاد اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے، عدالت سے درخواست ہے کہ آئین کا تحفظ کرے، ملک کی وکلا برادری عدالت عظمیٰ کے سامنے کھڑی ہے، آئین کے تحفظ اور بحالی کے لئے آمروں کے دور میں جیل جانا پڑا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئے کہ سوال یہ ہے کہ ریفرنس مکمل خارج کردیں ہمارے لیے یہ بڑا اہم معاملہ ہے، بار کونسل اور بار ایسو سی ایشنز کا عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے، بنچ کہ طرف سے آپکا بہت بہت شکریہ، مقدمے کے پہلوؤں پر مشاورت کریں گے، ابھی ہم کچھ وقفہ کرلیتے ہیں،یہ مقدمہ لکھنے کے لیے بڑا اہم تھا ، چار بجے بنچ دوبارہ آئے گا، اگر کسی ایک نقطے پر ججز کا اتفاق ہو گیا تو فیصلہ آج سنا دیں گے۔

حکومت فیصلے سے 'مطمئن'

سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردِ عمل دیتے ہوئے وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان عدلیہ کی عزت کرتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ معزز ججز اور عدلیہ کی عزت و تکریم کے حوالے سے حکومت کا موقف واضح ہے۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ حکومت اس فیصلے سے مطمئن ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی مرضی کے فیصلے کے لیے کبھی بھی کوشاں نہیں تھی۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ججز کے معاملات سپریم جوڈیشل کونسل کو ہی دیکھنے چاہئیں۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت کا کام ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوانا ہوتا ہے اس کے بعد یہ سپریم جوڈیشل کونسل اور متعلقہ جج کا معاملہ ہوتا ہے۔

اس سے قبل جمعے کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی (فائل فوٹو)

دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے منی ٹریل کی دستاویز عدالت میں پیش کر دیں۔ اُن کے وکیل نے کہا کہ فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہو گئے۔ جج کے اہل خانہ کی تفصیلات ویب سائٹ سے تلاش کی گئی ہیں تو حکومت ادائیگی کی رسید دے۔

جمعے کو جب سماعت شروع ہوئی تو وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی دستاویزات سر بمہر لفافے میں عدالت میں جمع کرا دیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں لیتے اور اور نہ ہی اس پر کوئی آرڈر پاس کریں گے۔ معزز جج کی بیگم صاحبہ تمام دستاویزات ریکارڈ پر لاچکی ہیں۔ آپ اس کی تصدیق کرائیں۔

درخواست گزار کے وکیل منیر اے ملک نے بھی سر بمہر لفافے میں دستاویزات عدالت میں پیش کیں اور جواب الجواب میں کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے بدنیتی پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا۔ توقع ہے کہ مجھے جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنی پڑے گی لیکن سمجھ نہیں آرہی حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا۔

خیبرپختوںخوا بار کونسل کے وکیل افتخار گیلانی نے دلائل میں کہا کہ خیبرپختونخوا کے 20 ہزار وکلا کی نمائندگی کر رہا ہوں۔

اُنہوں نے کہا کہ اس مقدمے میں 39 درخواستیں مختلف بار کونسل اور بار ایسو سی ایشنز نے دائر کی ہیں۔ یہ درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے رشتہ دار نہیں، یہ درخواست گزار عدالتی نظام کا حصہ ہیں۔

خیال رہے کہ اس کیس میں سابق وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم وزارت سے استعفی دے کر وفاق کے وکیل بنے تھے۔ کئی روز تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران اُنہیں ججز کے تندو تیز سوالات کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس تھا کیا؟

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیے تھے۔ ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرونِ ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

صدارتی ریفرنسز پر سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا پہلا اجلاس 14 جون 2019 کو طلب کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہو چکی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جسے گزشتہ دنوں کونسل نے خارج کر دیا تھا۔

بعد ازاں جسٹس فائز عیسیٰ نے عدالتِ عظمٰی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کردہ ریفرنس کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی جس پر عدالت نے فل کورٹ تشکیل دیا تھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال اس بینچ کی سربراہی کر رہے تھے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک اور بابر ستار نے حکومتی ریفرنس کو بدنیتی قرار دیا ہے۔

اس ریفرنس میں اٹارنی جنرل انور منصور کے مستعفی ہونے کے بعد خالد جاوید کو اٹارنی جنرل بنایا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے بھی فروری میں اس کیس کی سماعت کے دوران وفاق کی نمائندگی کرنے سے معذرت کرلی تھی۔

اس کے بعد وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنی وزارت سے مستعفی ہوکر عدالت میں دلائل دینے کا فیصلہ کیا۔