چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے واضح کیا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں قائم فوج کے حراستی مراکز آئین کے تحت نہ ہوئے تو آرٹیکل 245 کے تحت تحفظ نہیں ملے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں مثال دی جاتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے سروں کے ساتھ فٹبال کھیلنے والوں کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چاہیے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کیا ہم آئین کے ساتھ فٹبال کھیلیں؟
چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بدھ کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں فاٹا، پاٹا ایکٹ اور ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس 2019 سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دیے۔
SEE ALSO: حراستی مراکز سے متعلق تفصیلات سپریم کورٹ کو فراہمچیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ کئی ہزار خاندانوں اور لاکھوں لوگوں کا معاملہ ہے۔ اٹارنی جنرل صاحب! جا کر وزارتِ قانون کو کھنگالیں اور چیک کریں کہ یہ قوانین کیسے بنے؟ اگر قانون سازی آئین کے خلاف ہوئی تو آرٹیکل 245 کا تحفظ نہیں ملے گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ مجھے آج شدید بخار ہے دلائل نہیں دے سکتا۔ اہم اور حساس نوعیت کا کیس ہے اس لیے التواء کی درخواست نہیں کر رہا۔ آج عدالت دوسرے فریق کو سن لے تاکہ سماعت ملتوی نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے تین سوالات پوچھے تھے۔ اپنے دلائل میں عدالتی سوالات کے جواب دوں گا۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کا کام بیرونی خطرات اور جارحیت سے نمٹنا ہے۔ آرٹیکل 245 کا دوسرا حصہ طلب کرنے پر فوج کا سول انتظامیہ کی مدد کرنا ہے، آئین کے مطابق سول انتظامیہ کی مدد قانون کے تحت ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ فوج کے حوالے سے قانون سازی صوبوں کا نہیں وفاق کا اختیار ہے۔ 25 ویں ترمیم میں پہلے سے رائج قوانین کو تحفظ نہیں دیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ وفاق اور صوبے دونوں کو قانون سازی کا اختیار ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فوج سے متعلق قانون سازی صوبے نہیں کر سکتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی کو حراست میں لینے کا اختیار آج بھی صوبوں کے پاس ہے۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پہلے حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا تعین کریں گے پھر اگلی بات ہو گی۔
SEE ALSO: انسداد دہشت گردی کے خصوصی قانون اور حراستی مراکز کے خاتمے کا مطالبہچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 245 کا تحفظ نہ ہو تو ہائی کورٹ قانون کا جائزہ لے سکتی ہے۔ سول انتظامیہ کی مدد کے حوالے سے قانون صوبے بنا سکتے ہیں۔
ایک موقع پر عدالت کا ماحول تلخ بھی ہوا جب اٹارنی جنرل نے کہا کہ تفصیلی موقف صحت یاب ہوکر اپنے دلائل میں دوں گا۔ جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ دلائل نہیں دے سکتے تو آئے کیوں ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر آپ نے جارحانہ ہونا ہے تو میں دلائل نہیں دے سکتا۔
سماعت کے دوران صوبہ خیبر پختونخوا کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل قاسم ودود پیش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اختیار فوجی آپریشن دوسرا گرفتار افراد کے ٹرائل کا ہے۔ ٹرائل اور گرفتار افراد کے حوالے سے قانون صوبے ہی بنا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ انتہائی اہم، سنجیدہ اور قانون کی تاریخ کا معاملہ ہے۔ یہ کئی ہزار خاندانوں اور لاکھوں لوگوں کا معاملہ ہے۔ اس اہم کیس کے لیے سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ترین ججز بیٹھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2019 میں ایک نیا قانون بنا دیا گیا جیسے پہلے کسی قانون کا وجود ہی نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 2019 سے پہلے بھی قوانین موجود تھے پھر ایسا کیوں ہوا؟
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ کیس کی مکمل تیاری کے ساتھ آئیں ورنہ عدالت ازخود فیصلہ کرے گی۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ حراستی مرکز میں حراست میں رکھنے کا قانون بنانے سے پہلے کوئی سمری بنائی گئی تھی یا ایسے ہی قانون بنایا گیا۔ جس پرایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا قاسم ودود نے کہا کہ اس قانون کی باقاعدہ سمری بنائی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کہنا نہیں چاہتا لیکن قابلیت کا بہت فقدان ہے۔ انہوں نے وکلا کو پیر اور منگل تک کا وقت دیتے ہوئے کہا کہ آپ سب تیاری کر کے آئیں ورنہ قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس کو سنجیدگی سے لیں۔ فاٹا اور پاٹا کی زمینی حدود صوبے کے حوالے کی گئیں لیکن ان کے انتظامی امور کیسے چلائے جائیں گے یہ نہیں سوچا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے تحت کسی بھی گرفتار شخص کو مختصر عرصے تک حراست میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس قانون کے تحت لامحدود مدت تک کے لیے لوگوں کو حراست میں رکھا جاتا ہے۔ 1973 کے آئین میں شہری کو اس کی عزت اور توقیر کا حق دیا گیا ہے۔
کیس کی مزید سماعت پیر کو ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 25 اکتوبر کو خیبرپختونخوا ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) آرڈیننس 2019 کو غیر قانونی قرار دینے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے معاملے پر لارجر بینج تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔
پشاور ہائی کورٹ نے اپنے 17 اکتوبر کے فیصلے میں سابق قبائلی علاقوں (فاٹا اور پاٹا) کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد وہاں حراستی مراکز فعال ہونے کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ حکم نامے میں عدالت نے صوبے کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس کو تین روز کے اندر ان حراستی مراکز کا انتظام سنبھالنے کی ہدایت کی تھی۔