رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ: ’ایکشن اینڈ ایڈ آرڈیننس‘ کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوج کو خصوصی اختیارات دینے سے متعلق قانون ’ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس‘ کو پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف خیبر پختونخوا حکومت اور وفاق کی اپیل پر ابتدائی سماعت کی جس میں اپیل کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے مقدمے کے تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔

جمعے کو مقدمے کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے صوبے میں قائم حراستی مراکز کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ اپنے ملک میں اپنے ہی لوگوں کو ماورائے آئین رکھا ہوا ہے۔ ملک میں آئین اور قانون کا بول بالا ہونا چاہیے۔

مقدمے کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ (فائل فوٹو)
مقدمے کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ (فائل فوٹو)

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بینچ کے سامنے ’ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس 2019‘ کا دفاع کیا اور موقف اختیار کیا کہ پشاور ہائی کورٹ نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے صوبائی قانون کو کالعدم کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 245 کے سیکشن 3 کے تحت یہ معاملہ ہائی کورٹ کے عدالتی اختیار میں نہیں آتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ تو اس قانون کو غلط قرار دے چکی ہے۔ آئین کے مطابق کسی بھی آرڈیننس کو 4 ماہ سے زیادہ نہیں چلایا جا سکتا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ کون سے قانون کے تحت کوئی بھی صوبہ، وفاق کے اختیارات کو استعمال کر سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ آئین اور لوگوں کی آزادی کا معاملہ ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جس کو چاہے دہشت گرد قرار دے کر پکڑ لیا جائے۔ کل کو کوئی مجھے بھی پکڑ کر لے جائے اور کہے کہ یہ دہشت گرد ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید کہا کہ کسی شخص کو عدالت میں پیش کیے بغیر تین ماہ سے زائد نظر بند نہیں رکھا جا سکتا۔ کیا آپ پاکستان میں گوانتاناموبے بنانا چاہتے ہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ خیبر پختونخوا ایکشنز آرڈیننس 2019 میں پاکستان پینل کوڈ کے تحت سزائیں دی جاتی ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایسے مجرموں کو آپ 15 سال تک نظر بند رکھ سکتے ہیں؟ یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے۔ کیا کسی کو جرم کے ارادے پر گرفتار کیا جاسکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان پینل کوڈ میں تو کسی کو تھپڑ مارنا بھی جرم ہے۔

اٹارنی جنرل نے حراستی مراکز کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ نظر بندی مراکز کے قیام کے بعد دہشت گردی میں کمی ہوئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے رہے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گا۔ بعد ازاں عدالت نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 13 نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کیا تھا؟

پشاور ہائی کورٹ بینچ نے 18 اکتوبر کو قبائلی اضلاع سابق فاٹا اور پاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد بھی حراستی مراکز فعال ہونے کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل بینچ نے صوبے کے انسپکٹر جنرل آف پولیس کو 3 روز کے اندر ان حراستی مراکز کا انتظام سنبھالنے کی ہدایت کی تھی۔

عدالت نے آئی جی خیبر پختونخوا کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ زیر حراست ہر شخص کے مقدمے کی جانچ پڑتال کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔ جن کے خلاف کوئی کیس درج نہیں، انہیں رہا کر دینا چاہیے جب کہ جن کے خلاف مقدمات درج کیے جا چکے ہیں انہیں عام عدالتوں میں بھجوانا چاہیے۔

پشاور ہائی کورٹ بینچ نے 18 اکتوبر کو قبائلی اضلاع سابق فاٹا اور پاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد بھی حراستی مراکز فعال ہونے کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ (فائل فوٹو)
پشاور ہائی کورٹ بینچ نے 18 اکتوبر کو قبائلی اضلاع سابق فاٹا اور پاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد بھی حراستی مراکز فعال ہونے کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ (فائل فوٹو)

مذکورہ درخواست حراستی مراکز میں موجود 2 قیدیوں کی جانب سے ایڈووکیٹ شبیر حسین نے دائر کی تھی جس میں کے پی ایکشن آرڈیننس 2019، کے پی سابق فاٹا میں جاری قوانین ایکٹ 2019 اور کے پی سابق پاٹا میں جاری قوانین ایکٹ 2018 کو چیلنج کیا گیا تھا۔

حراستی مرکز کب بنے؟

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی لہر کے دوران 20 جولائی 2011 کو صوبائی وزیر داخلہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا۔ جس کے تحت ایسے 9 مراکز صوبے کے حراستی مراکز قرار پائے تھے جہاں سیکڑوں مبینہ شدت پسندوں کو قید کیا گیا تھا۔

اسی قسم کا ایک حکم نامہ 12 اگست 2011 کو ایڈیشنل چیف سیکریٹری فاٹا نے بھی جاری کیا تھا جس کے تحت تقریباً 34 مراکز کو حراستی مراکز قرار دیا گیا تھا۔

درخواست گزار کیا کہتے ہیں؟

پشاور ہائی کورٹ میں اس قانون کو چیلنج کرنے والے قیدیوں کے وکیل شبیر حسین گگیانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں وفاق کی طرف سے جو اپیل کی گئی ہے، اس کے لیے ہمیں کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ اگر ہمیں نوٹس جاری کیا جاتا تو ہم لازمی اس کیس میں اپنا مؤقف پیش کرتے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے۔ ان کے بقول پشاور ہائی کورٹ میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت 70 ہزار سے زائد افراد ان حراستی مراکز میں موجود ہیں۔ ان افراد کے مستقبل کا فیصلہ ہونا چاہیے۔

شبیر حسین نے کہا کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ میں لارجر بینچ بننا ایک احسن عمل ہے کیوں کہ اعلیٰ عدلیہ اس معاملے کی حساسیت کو سمجھ رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG