سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک بار پھر ملک میں کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ عدالتِ عظمی کا کہنا ہے کہ کرونا کے لیے کیے گئے اخراجات سے زیادہ تشویش سہولیات کے معیار پر ہے۔
منگل کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رُکنی لارجر بینچ نے کرونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین لیفٹننٹ جنرل افضل حیات بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وائرس سے بچاؤ کے لیے غیر معیاری اور تھرڈ کلاس اشیا باہر سے منگوائی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں اکثر مال سکریپ شدہ ہی منگوایا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے مشتبہ مریضوں کے سرکاری اور نجی لیبارٹریوں سے ٹیسٹس کے نتائج میں تضاد پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اخراجات سے متعلق تفصیلات کی فراہمی کے لیے چیئرمین این ڈی ایم اے عدالت میں موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہماری تشویش اخراجات سے متعلق نہیں ہے، ہماری تشویش سروسز کے معیار پر ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
قرنطینہ اور سرکاری لیبز
کرونا ٹیسٹنگ کے معیار پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ سرکاری اور نجی لیب کے ٹیسٹس میں فرق کیوں آتا ہے؟ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کے ملازمین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
سپریم کورٹ کے ملازمین کا ٹیسٹ سرکاری لیب سے مثبت جب کہ نجی لیب میں منفی آیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور میں ایک شخص رو رہا تھا کہ اس کی بیوی کو کرونا وائرس نہیں لیکن پھر بھی ڈاکٹرز اُنہیں ڈسچارج نہیں کر رہے۔
انہوں نے کہا کہ قرنطینہ سینٹرز میں واش رومز صاف نہیں ہوتے، پانی نہیں ہوتا۔ 10،10 لوگ ایک ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوشل میڈیا پر قرنطینہ سینٹرز کی حالتِ زار کی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ "مشتبہ مریض ویڈیوز میں تارکین وطن کو کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نہ آئیں۔ ہم بہت غریب ملک ہیں۔ ہماری معیشت کا شمار افغانستان، یمن اور صومالیہ سے کیا جاتا ہے تاہم ہم پیسے سے کھیل رہے ہیں اور لوگوں کو احساس نہیں۔"
چیف جسٹس نے کہا کہ "پاکستان میں ہر کمپنی اور ادارہ بند ہو رہا ہے، ہم صومالیہ بنتے جا رہے ہیں، لیکن بادشاہوں کی طرح رہ رہے ہیں۔ حاجی کیمپ سینٹر قرنطینہ پر 56 کروڑ خرچ کر دیے گئے لیکن اس کے باوجود قرنطینہ سینٹر تو نہ بن سکا چلو حاجیوں کی بہتری ہو جائے گی۔"
چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹننٹ جنرل افضل حیات نے عدالت کو بتایا کہ ملک میں اس وقت ماہانہ ایک ملین کٹس تیار کی جا رہی ہیں۔ ضرورت سے زائد کٹس ایکسپورٹ کرنے کی طرف جا رہے ہیں۔ 1187 وینٹی لیٹرز کا آرڈر دیا تھا 300 پاکستان پہنچ چکے ہیں جب کہ 20 اپریل کے بعد اب تک کوئی 'پی پی ای کٹ' درآمد نہیں کی۔
عدالت میں موجود ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ لاک ڈاؤن پہلے جیسا موثر نہیں رہا۔ بیوٹی سیلون اور حجام کی دکانیں کھل رہی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہماری وجہ سے نہیں کھل رہے۔ "آپ کے انسپکٹر پیسے لے کر اجازت دے رہے ہیں۔ عدالت نے سندھ حکومت کو کچھ نہیں کہا، سندھ حکومت نے تمام سرکاری دفاتر کھول دیے ہیں۔"
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ ڈیسٹو پاکستان آرمی کیا چیز ہے؟ ڈیسٹو کسی آرمی افسر کی نجی کمپنی ہو گی؟ جس پر چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا کہ ڈیسٹو فوج کے اسٹرٹیجک پلاننگ ڈویژن (ایس پی ڈی) کی ذیلی کمپنی ہے۔
ڈیسٹو پاکستان آرمی کا مختلف تجارتی منصوبوں میں معاونت کا ادارہ ہے جو مختلف صنعتوں کے ساتھ پاکستان آرمی کے منصوبوں کے لیے سازوسامان تیار کرتا ہے۔
ماضی میں اس ادارے پر بعض ایٹمی آلات کی خریدو فروخت کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔ حالیہ دنوں میں کرونا وبا کے لیے ہینڈ سینیٹائزر بنانے کا کام ڈیسٹو کو دیا گیا تھا جس کے بعد بڑی مقدار میں سینیٹائزر تیار کرلیے گئے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق پاکستان اب سینیٹائزر برآمد کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ٹڈی دل ایتھوپیا سے پاکستان کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ٹڈی دل سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ٹڈی دل کو قابو نہ کیا تو آئندہ سال فصلیں نہیں ہوں گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے بھی ٹڈی دل آتا تھا لیکن دو ہفتے میں اسے ختم کر دیا جاتا تھا۔ فصلوں کے تحفظ کے ادارے کے پاس جہاز تھے جو ٹڈی دل سے نمٹتے تھے۔
چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا کہ اس وقت 20 میں سے صرف ایک جہاز فعال ہے، مزید ایک جہاز بھی خرید لیا ہے۔ پاکستان فوج کے پانچ ہیلی کاپٹرز کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ روز ملک بھر میں تمام شاپنگ مالزاور کاروبار کھولنے کا حکم دیا تھا۔ جس کے بعد مختلف ایس او پیز کے تحت کاروبار کھول دیے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شاپنگ مالز کھولنے کا حکم عید کے تناظر میں دیا تھا کیوں کہ یہاں ایس او پیز پر بہتر عمل درآمد کرایا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے بتایا کہ عید کے بعد اس معاملے کا دوبارہ جائزہ لیں گے۔