وائٹ ہاؤس نے جمعے کے روز اس بات کی نشاندہی کی کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے راہنما، کِم جونگ اُن کے درمیان بالمشافیٰ بات چیت پر اتفاق کے بدلے ’’صفر رعایتیں‘‘ دی گئی ہیں۔
وائٹ ہاؤس پریس سکریٹری سارا ہکابی سینڈرز نے کہا ہے کہ ’’ہم طاقتور پوزیشن سے بات کر رہے ہیں‘‘، جو بات پچھلی انتظامیہ کے دور میں نہیں تھی۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ ٹرمپ انتظامیہ کے ’’شدید دباؤ‘‘ کا ہی نتیجہ ہے، اور یہ کہ ’’شمالی کوریا کی آواز کمزور ہے‘‘۔
سینڈرز نے کہا کہ ’’صدر تب تک ملاقات نہیں کریں گے جب تک وہ شمالی کوریا کی جانب سے ٹھوس اور قابل تصدیق اقدامات ہوتے نہیں دیکھتے‘‘۔ جنوبی کوریا کے اہل کاروں نے کہا ہے کہ بین الکوریائی سربراہ اجلاس کے دوران اُن سے عہد کیا گیا کہ وہ دیکھیں گے کہ جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل کے تجربات بند ہو جائیں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’صدر کو وہی کچھ مل رہا ہے جو وہ چاہتے تھے: شمالی کوریا کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تلف کر دے‘‘۔
وائٹ ہاؤس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ٹرمپ نے یہ پیش کش حیران کُن طور پر قبول کی، جس کا جمعرات کے روز جنوبی کوریا کے اہل کاروں نے اعلان کیا کہ وہ کِم سے مئی میں ملاقات کریں گے، جس کی تیاری کے لیے کئی ماہ لگے جس کام میں امریکی حکومت کی کئی متعلقہ ایجنسیاں لگی رہی ہیں۔
جمعرات کو جنوبی کوریا کے اہل کاروں کی جانب سے شمالی کوریا کے راہنما کا زبانی پیغام پہنچایا اور جمعے کی صبح امریکی صدر نے چین کے صدر شی جن پنگ کو ٹیلی فون کیا، جس میں امریکہ شمالی کوریا کے سربراہان کی غیر معمولی ملاقات پر بات کی گئی۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق، ٹرمپ اور شی نے ’’امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان مکالمے کے امکان کو خوش آئند قرار دیا اور اس بات کا عزم کیا کہ شمالی کوریا پر تب تک دباؤ اور تعزیرات قائم رہیں گی جب تک وہ مکمل طور پر قابل تصدیق اور جوہری ہتھیاروں کو ناقابل تردید طور پر تلف کرنے کی جانب ٹھوس اقدامات نہیں کرتا۔ صدر ٹرمپ نے اس بات کی توقع کا اظہار کیا کہ شمالی کوریا کے راہنما کِم جونگ اُن شمالی کوریا کے لیے ایک روشن راہ کا انتخاب کریں گے‘‘۔
وائٹ ہاؤس ترجمان نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے ساتھ ملاقات کے ’’مقام اور وقت‘‘ کا ابھی تعین نہیں ہوا۔
جمعے کی پریس بریفنگ میں سوالات کے جواب دیتے ہوئے، سارا ہکابی سینڈرز نے کہا ہے کہ ’’ہم کوئی رعایت نہیں دے رہے ہیں‘‘۔ اور یہ کہ ’’ہم طاقت کی پوزیشن میں ہیں‘‘، اور ’’بات چیت کا انحصار شمالی کوریا کی جانب سے ٹھوس اور قابل ِ تصدیق اقدامات پر ہے‘‘۔
ترجمان نے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ صدر ٹرمپ ’’مذاکرات کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے‘‘۔
تاہم، ترجمان نے کہا کہ امریکی صدر نے شمالی کوریا کے لیڈر سے ملاقات کی دعوت قبول کر لی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں، اُنھوں نے واضح کیا کہ صدر اپنے مشیروں اور ماہرین سے صلاح و مشورے کے بعد ہی فیصلے کرتے ہیں۔