بحریہ یونیورسٹی کی طالبہ حلیمہ کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟

طالبہ کی ہلاکت پر بحریہ یونیورسٹی کے طلبہ نے شدید احتجاج کیا۔

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان کی بحری فوج کے زیرِ انتظام چلنے والی بحریہ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم طالبہ حلیمہ امین کی ہلاکت پر اسلام آباد انتظامیہ نے نوٹس لیتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر اور اسلام آباد پولیس کو تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی وزیرِ تعلیم اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

حلیمہ امین بحریہ یونیورسٹی میں بیچلرز پروگرام کی طالبہ تھیں جو جمعرات کو یونیورسٹی کے نئے کیمپس کی بلڈنگ کے چوتھے فلور سے گر کر ہلاک ہوگئی تھیں۔

طالبہ کی ہلاکت پر طالب علموں کا مؤقف ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے زیرِ تعمیر بلاک کو کھولا گیااور نو تعمیر بلاک کی چوتھی منزل پر باقاعدہ کلاسز کا اجرا بھی کیا گیا۔ لیکن عمارت زیرِ تعمیر ہونے کے باوجود کوئی حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے۔

یونیورسٹی کے طالب علموں کے مطابق چوتھی منزل پر لفٹ کے لیے جگہ خالی چھوڑی گئی تھی لیکن وہاں کسی قسم کا کوئی بورڈ یا وارننگ سائن آویزاں نہیں کیا گیا تھا اور حلیمہ امین وہاں سے گر کر زندگی کی بازی ہار گئی۔

سوشل میڈیا پر اس حوالے سے یہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ طالبہ کو چوتھی منزل سے گرنے کے بعد شدید زخمی حالت میں اسلام آباد کے پمز اسپتال پہنچایا گیا لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے وہاں پہنچ کر ان کے والدین سے پوچھے بغیر زبردستی سی ایم ایچ اسپتال منتقل کیا اور اسی دوران حلیمہ کی ہلاکت ہوئی۔

دوسری جانب یونیورسٹی انتظامیہ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ بلاک زیرِ تعمیر تھا اور طلبہ و طالبات کو اس طرف جانے سے منع کیا گیا تھا۔

پاکستان میں مختلف ٹی وی چینلز پر حلیمہ کی موت کی وجہ سیلفی لیتے ہوئے گرنا بھی بتائی جا رہی ہے لیکن اس حوالے سے اب تک حلیمہ کے اہلِ خانہ یا یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔

جمعرات کو حلیمہ کی ہلاکت کے بعد جمعے کی صبح بحریہ یونیورسٹی کے طالب عملوں نے انتظامیہ کے خلاف احتجاج بھی کیا اور ریکٹر سے استعفی کا مطالبہ کیا۔

اس دوران طلبہ و طالبات یونیورسٹی سے باہر نکل آئے اور مارگلہ روڈ کو عام ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔ طلبہ کا احتجاج بڑھنے پر یونیورسٹی کے ریکٹر وائس ایڈمرل (ر) محمّد شفیق نے استعفٰی دینے کا اعلان کیا لیکن اب تک اس بارے میں کوئی باضابطہ نوٹی فیکشن جاری نہیں ہوا ہے۔

اسلام آباد پولیس نے اس معاملے پر ابتدائی رپورٹ درج کی ہے لیکن حلیمہ کے والدین کی طرف سے اب تک مقدمہ کے اندراج کے لیے کوئی درخواست نہیں دی گئی۔

اسلام آباد پولیس کے اہلکار واقعے کی اطلاع ملنے پر جب یونیورسٹی پہنچے تو جمعرات کو انہیں یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ البتہ جمعے کو پولیس اہلکاروں کو جائے حادثہ پر جانے کی اجازت دی گئی۔

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقت نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ اسلام آباد انتظامیہ نے معاملے کا نوٹس لیا ہے اور اسلام آباد پولیس اور اسسٹنٹ کمشنر مہرین بلوچ معاملے کو دیکھ رہی ہیں۔

وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی طالبہ کی ہلاکت پر ٹوئٹ کیا اور کئی سوالات اٹھا دیے۔ شیریں مزاری نے طالبہ کی ہلاکت کی ذمہ داری یونیورسٹی انتظامیہ پر ڈالتے ہوئے اعلٰی تعلیمی کمیشن اور وفاقی وزیر تعلیم و تربیت شفقت محمود سے واقعے کی انکوائری کرانے کا مطالبہ بھی کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ مجرمانہ غفلت کا کیس ہے اور اس کی ذمہ دار یونیورسٹی انتظامیہ ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ہم بچوں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں؟ زیر تعمیر بلڈنگ میں بچوں کو جانے کی اجازت کیوں دی گئی؟ اور زیرِ تعمیر بلڈنگ پر وارننگ سائن کیوں نہیں لگائے گئے؟

انہوں نے مزید کہا کہ حادثے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کا رویّہ تکلیف دہ تھا۔ حلیمہ کو زخمی حالت میں پہلے پمز اور پھر سی ایم ایچ اسپتال منتقل کیا گیا اور بتایا جا رہا ہے کہ سی ایم ایچ منتقلی کے دوران حلیمہ کی موت واقع ہوئی۔

شیریں مزاری نے کہا کہ والدین کو بتائے بغیر یونیورسٹی انتظامیہ نے بچی کو کیسے منتقل کیا؟ اسپتال انتظامیہ اور وزیرِ صحت ظفر مراد نے والدین کی مرضی کے بغیر طالبہ کو منتقل کرنے کی اجازت کیسے دی؟

خیال رہے کہ سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے کی گونج ہے اور ٹوئٹر پر ’جسٹس فار حلیمہ‘ کا ٹرینڈ بھی بن چکا ہے جو اب تک سیکڑوں صارفین ٹوئٹ کر چکے ہیں۔

اس معاملہ پر یونیورسٹی انتظامیہ اور پاکستان بحریہ کی طرف سے اب تک کوئی باضابطہ ردعمل نہیں دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں تعلیمی اداروں میں کسی طالب علم کی ہلاکت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں کراچی میں نمرتا چندانی کیس میں بھی کالج ہاسٹل میں طالبہ کی ہلاکت ہوئی جب کہ لاہور کے ایک اسکول میں سوئمنگ کے دوران ایک بچہ بھی ڈوب کر ہلاک ہو چکا ہے۔