امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کے دور میں امریکہ کی معیشت نے غیر معمولی ترقی کی ہے۔ وہ سوشلزم کو ملک کا نظامِ صحت خراب نہیں کرنے دیں گے۔ فوج کو مضبوط بنایا ہے لیکن مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی جنگیں ختم کرنے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار منگل کو کانگریس کے دونوں ایوانوں سے 'اسٹیٹ آف دی یونین' خطاب میں کیا۔
امریکہ کے صدر ہر سال کانگریس کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں جن میں وہ ملک کی داخلی و خارجی صورتِ حال اور مستقبل کے اہداف کا تعین کرتے ہیں۔ اس خطاب کو اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کہا جاتا ہے۔
منگل کو صدر ٹرمپ خطاب کے لیے آئے تو ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے ان سے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ لیکن صدر ٹرمپ اُنہیں نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے منگل کو اسی ایوانِ نمائندگان میں خطاب کیا جہاں 18 دسمبر کو دو الزامات پر ان کے مواخذے کی منظوری دی گئی تھی۔ صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذہ شروع کرنے میں ایوان کی اسپیکر نینسی پلوسی کا مرکزی کردار ہے جس پر صدر ٹرمپ بارہا انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے خطاب کے دوران ری پبلکن ارکان وقفے وقفے سے اپنی نشستوں سے اٹھ کر صدر کا حوصلہ بڑھاتے رہے جب کہ ڈیموکریٹ ارکان صدر کی تقریر کے دوران خاموش رہے۔ ہاؤس اسپیکر نینسی پلوسی نے صدر ٹرمپ کے خطاب کے اختتام پر ان کی تقریر کا مسودہ پھاڑ دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ تین سال پہلے ہم نے امریکہ کی عظمت کی واپسی کا آغاز کیا تھا۔ آج میں آپ کے سامنے شاندار نتائج پیش کرنے کے لیے موجود ہوں۔
ان کے بقول، "ملک کی معیشت بہتر ہو رہی ہے، روزگار میں اضافہ ہو رہا ہے، جرائم گھٹ رہے ہیں اور امریکہ ترقی کر رہا ہے۔ صرف تین سال میں ہم نے امریکہ کے زوال کی سوچ کو ختم کر دیا ہے۔"
منگل کو اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم ایسی رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں جس کے بارے میں کچھ عرصہ پہلے تک سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ اور ہم کبھی پیچھے کی طرف نہیں جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ میں آج جو تصور پیش کر رہا ہوں، وہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم کیسے دنیا کا سب سے خوش حال معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں جہاں ہر شہری امریکہ کی شاندار ترقی میں شریک ہو سکتا ہے۔ جہاں ہر کمیونٹی امریکہ کے غیر معمولی عروج میں شامل ہو سکتی ہے۔
صدر ٹرمپ کے بقول انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے دن سے ہی امریکہ کی معیشت کی بحالی کے لیے کوششیں شروع کر دی تھیں۔ روزگار کے لیے رکاوٹ بننے والے قواعد ختم کیے۔ تاریخی ٹیکس کٹوتیاں کیں اور منصفانہ تجارتی معاہدوں کے لیے جدوجہد کی۔
صدر ٹرمپ نے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب ایسے موقع پر کیا جب اُنہیں سینیٹ میں مواخذے کی کارروائی کا سامنا ہے۔ وہ امریکہ کی تاریخ کے تیسرے صدر ہیں جو مواخذے کی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔
معیشت کی ترقی
صدر ٹرمپ نے کہا کہ "گزشتہ حکومت کے آٹھ سالہ دور میں تین لاکھ افراد کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ میری حکومت کے صرف تین سال میں 35 لاکھ افراد کو روزگار ملا۔ ریگولیٹری کم کرنے کی ہماری جرات مندانہ مہم کی وجہ سے امریکہ دنیا میں تیل اور گیس کا سب سے بڑا پیداواری ملک بن چکا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ہم اپنی قوم کی عظیم پیداواری طاقت بحال کر رہے ہیں حالاں کہ پیش گوئیاں کی جارہی تھیں کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکے گا۔ گزشتہ دو ادوار میں 60 ہزار کارخانے بند ہوئے تھے۔ میری انتظامیہ میں 12 ہزار نئے کارخانے کھلے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نئے سیاست دان آئے اور تجارتی معاہدے 'نافٹا' کو بدلنے کا وعدہ کر کے چلے گئے اور کچھ نہیں کیا۔ لیکن ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ چند دن پہلے میں نے 'نافٹا' کو امریکہ، میکسیکو اور کینیڈا کے نئے معاہدے سے بدل دیا ہے۔
چین کے ساتھ تجارتی معاہدہ
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم نے چین کے ساتھ نیا تجارتی معاہدہ کیا ہے جو ہمارے کارکنوں کا دفاع کرے گا، امریکی حقوق دانش کا تحفظ کرے گا، ہمارے خزانے میں اربوں ڈالر لائے گا اور امریکہ کی مصنوعات اور پیداوار کے لیے وسیع نئی مارکیٹیں کھولے گا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ کی آزادی کا تحفظ کرنے کے لیے ہم نے امریکی افواج پر 2200 ارب ڈالر صرف کیے ہیں۔ ہم نے امریکی افواج کی ایک نئی شاخ تخلیق کی ہے، یعنی خلائی فورس۔ ایک شاندار معاشرے کی تشکیل کے لیے اگلا قدم یہ ہوگا کہ امریکہ کے ہر نوجوان کو بہترین تعلیم اور امریکی خواب کو پانے کا موقع ملے۔
ان کے بقول، والدین کو اپنے بچوں کو ناکام سرکاری اسکول میں بھیجنے پر مجبور نہیں ہونا چاہیے۔ امریکی خاندانوں کی بہترین زندگی کے لیے لازمی ہے کہ انہیں سستی، دنیا کی جدید ترین اور اعلیٰ معیار کے علاج کی سہولتیں ملیں۔ ہم موجودہ شرائط کے مطابق مریضوں کا تحفظ کریں گے، ہم سوشلزم کو کبھی امریکہ کا نظامِ صحت برباد نہیں کرنے دیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
صدر ٹرمپ نے کہا کہ "میں نے حال ہی میں فخر سے اس قانون پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت سرکاری اداروں کے ملازم نئے والدین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی ملے گی۔ یہ ملک بھر کے لیے ایک نمونہ عمل ہوگا۔"
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو قانون پسند امریکیوں کی پناہ گاہ ہونا چاہیے، غیر ملکی مجرموں کے لیے نہیں۔ میری حکومت نے امریکہ کی جنوبی سرحد کو محفوظ کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے ہیں۔ میری حکومت قومی سلامتی کا سختی کے ساتھ دفاع کر رہی ہے۔ امریکیوں کی زندگی کا تحفظ کرنے کے ساتھ ہم مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی جنگیں ختم کرنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔
وینزویلا کے اپوزیشن لیڈر جان گوئیڈو بھی صدر ٹرمپ کے 'اسٹیٹ آف دی یونین' خطاب کے موقع پر ایوان میں موجود تھے۔ گوئیڈو کو امریکہ نے وینزیلا کا قائم مقام صدر تسلیم کر رکھا ہے اور وہ بطور مہمان تقریب میں شریک ہوئے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب کے دوران غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے والے تارکین وطن کا ذکر کرتے ہوئے ڈیموکریٹس پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جنوبی سرحد سے مہاجرین کی نقل مکانی فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے اور نام نہاد پابندیوں والے شہروں میں انہیں تحفظ فراہم کرنا غلط ہے۔
'دہشت گرد امریکہ کے انصاف سے نہیں بچ سکتے'
افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہماری عظیم فوج افغانستان میں زبردست کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ کسی اور ملک کے لیے سیکیورٹی ایجنسی کا کردار ادا کرنا ہمارا کام نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم امریکہ کی طویل ترین جنگ کے اختتام اور اپنے فوجیوں کی وطن واپسی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ افغانستان سے متعلق امن مذاکرات جاری ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ افغانستان میں لاکھوں لوگ مارے جائیں کیوں کہ وہاں معصوم لوگ بھی ہیں۔
ایران کی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ قاسم سلیمانی عراق میں متعدد امریکیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار تھا۔ اس نے دسمبر میں عراقی تنصیب پر حملے کا حکم دیا تھا اور وہ مزید حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ قاسم سلیمانی کو اُن کے حکم پر نشانہ بنایا گیا اور فوج نے کوئی غلطی کیے بغیر ایک حملے میں قاسم سلیمانی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ دہشت گردوں کے لیے ہمارا پیغام واضح ہے کہ وہ امریکہ کے انصاف سے نہیں بچ سکتے۔ اگر وہ امریکہ کے شہریوں پر حملے کریں گے تو اس کے نتیجے میں انہیں جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔